گلوان وادی سے چینی فوج واپس چلی گئی

0
312

بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ کی گلوان وادی میں متنازع علاقوں سے دونوں ملکوں کے فوجیوں کی واپسی کا عمل جاری ہے۔

بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق چینی اور بھارتی فوجی گلوان وادی میں پیٹرولنگ پوائنٹ 14 سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اِسی مقام پر 15 جون کو دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں جن میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

ماہرین کے مطابق لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) سے واپسی کا یہ عمل کور کمانڈرز کی سطح پر ہونے والی بات چیت میں طے پانے والے معاہدے کا ابتدائی قدم ہے لیکن حالات معمول پر آنے میں اب بھی وقت لگے گا۔

دونوں ملکوں کے خصوصی نمائندوں کے درمیان اتوار کو دو گھنٹے تک ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں بھارت اور چین کے فوجیوں کی متنازع علاقوں سے واپسی کا عمل شروع ہوا۔

بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور چین کے وزیر خارجہ وانگ ڑئی نے بذریعہ ٹیلی فون سرحدی تنازع پر تفصیل سے گفتگو کی۔

پیر کو دونوں ملکوں کی جانب سے بیانات جاری کیے گئے جو ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے تھے۔

بھارتی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ دونوں ملکوں میں اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ سرحدی تنازع پر خصوصی نمائندے بات چیت جاری رکھیں گے۔ ایل اے سی کی موجودہ صورت حال کو بدلنے کی کوئی یکطرفہ کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔

بیان کے مطابق دونوں ملکوں نے اس بات کا عزم کیا کہ وہ ایل اے سی کا پورا احترام کریں گے اور یہ کہ سرحد پر امن و استحکام کے قیام کے لیے فوجیوں کا پوری طرح پیچھے ہٹنا ضروری ہے۔

دوسری جانب چینی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ گلوان وادی میں حالیہ دنوں میں جو بھی صحیح یا غلط ہوا ہے وہ بالکل واضح ہے۔ چین اپنی علاقائی خود مختاری اور سرحد پر امن و استحکام کا تحفظ پوری قوت سے کرے گا۔

بیان کے مطابق وانگ ڑئی نے اس بات پر زور دیا کہ فریقین کو خطرات پیدا کرنے کے بجائے اسٹرٹیجک جائزے کا پابند ہونا چاہیے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ “ہم امید کرتے ہیں کہ بھارت عوامی رائے عامہ کی صحیح سمت میں رہنمائی کرنے، دوطرفہ بات چیت اور تعاون کو آگے بڑھانے اور اختلافات کو ہوا دینے اور پیچیدہ امور سے بچنے کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔”

نئی دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں ‘سینٹر فار چائنیز اینڈ ساو¿تھ ایسٹ اسٹڈیز’ کے چیئرپرسن پروفیسر بی آر دیپک نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر کشیدگی کم ہو رہی ہے اور فوجی واپس آ رہے ہیں لیکن اس معاملے کو مکمل طور پر سلجھنے میں کافی وقت لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں چین سے متعلق بھارت کی پالیسی میں خواہ وہ فوجی ہو یا تجارتی کافی تبدیلیاں ہوں گی۔

بی آر دیپک نے مزید کہا کہ جو مفاہمت ہوئی ہے اس میں بھارت کو اپنی پوزیشن سے ہٹنا پڑا ہے۔ ان کے بقول دو قدم آگے بڑھنا اور ایک قدم پیچھے ہٹنا چین کا پرانا طریقہ کار ہے۔ اس سے قبل بھی وہ ایسا ہی کر چکا ہے۔

ان کے مطابق یہ جو سمجھوتہ ہوا ہے اس میں چین کا فائدہ اور بھارت کا نقصان ہے۔ چینی فوجی ایل اے سی پر بھارتی علاقے میں داخل ہوئے تھے اور اب وہیں سے وہ کچھ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ بھارتی فوجی بھی پیچھے ہٹ رہے ہیں لیکن وہ اپنے ہی علاقے میں پیچھے ہٹ رہے ہیں۔

نئی دہلی میں ‘سینٹر فار پالیسی ریسرچ’ سے وابستہ تجزیہ کار بھارت کرناد کہتے ہیں کہ یہ محاذ دیر تک گرم رہے گا۔ ا±ن کا کہنا تھا کہ بھارت اس سرحد سے پیچھے ہٹنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ا±ن کا کہنا تھا کہ “چین نے اس علاقے میں بہت سے تعمیرات کر رکھی ہیں کیا چین ان سے پیچھے ہٹے گا مجھے ایسا نہیں لگتا۔”

تازہ رپورٹس کے مطابق چینی جوان تصادم کے مقام سے دو کلو میٹر اور بھارتی جوان ڈیڑھ کلو میٹر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ پیٹرولنگ پوائنٹ 14 پر جہاں چینی فوجیوں نے ٹینٹ نصب کرنے کے علاوہ تعمیرات کر رکھی تھیں ان سب کو منہدم کر دیا گیا ہے۔

اخبار ‘دی ہندو’ کے مطابق بھارتی جوان پہلے پیٹرولنگ پوائنٹ 14 تک گشت کرتے تھے مگر اب وہ سمجھوتے کے مطابق کم از کم ایک ماہ تک وہاں گشت نہیں کر سکیں گے۔ اس وقت چینی فوجی اس علاقے میں ہیں جس کو بھارت اپنا علاقہ کہتا رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حکومت کو یہ خدشہ ہے کہ اگر اس تنازع کا طویل المدتی حل نہ نکالا گیا تو بھارتی جوان اس علاقے میں گشت کرنے کا اپنا حق مستقل طور پر کھو دیں گے۔

یاد رہے کہ لداخ کا کل رقبہ 45 ہزار مربع میل یعنی ایک لاکھ 17 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے جنوب مشرق میں لداخ رینج، قراقرم رینج اور دریائے سندھ کے بالائی کے علاقے شامل ہیں۔

پاکستان کی جانب یہ گلگت بلتستان سے جا ملتا ہے۔ کارگل اور سیاچن اسی حصے میں واقع ہیں جسے دنیا کا بلندترین محاذ جنگ کہا جاتا ہے۔

ایکچوئل لائن آف کنٹرول (ایل اے سی) میں لداخ کی گلوان وادی حالیہ تنازع کی وجہ بنی تھی۔ چین اسے اپنی ملکیت قرار دے رہا ہے جب کہ بھارت کا اصرار ہے کہ سرحدی حد بندی میں یہ علاقہ اس کے اندر آتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس تنازع کا مستقل حل ایک مشکل اور صبر آزما مرحلہ ہے۔

چین اور بھارت کے درمیان 3500 کلو میٹر طویل سرحد کی مستقل حد بندی اب تک نہیں ہوئی ہے۔ سرحدی حد بندی پر دونوں ملکوں کا الگ الگ موقف ہے۔ 1962 میں سرحدی تنازع پر دونوں کے درمیان جنگ بھی ہو چکی ہے جب کہ رواں سال مئی سے دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here