شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ -تحریر: محمد یوسف بلوچ

ایڈمن
ایڈمن
28 Min Read


قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔13
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن

”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)

(قسط13 )

بلوچ نیشنل فرنٹ کا قیام:۔
نواب اکبر خاان شہید سنگل بلوچ قومی پارٹی کی ضرورت پہ زور دیتا تھا لیکن شہید اکبر خان بگٹی بلوچ قوم کو ایک پلیٹ فارم پہ لانے میں کامیاب نہیں ہوسکا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شہید نواب اکبرخان کو زیادہ وقت نہیں ملا اسی لیے وہ بلوچ قوم کی یکجہتی کو عملی جامہ نہیں پہناسکے۔نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد براہمداغ بگٹی نے بلوچ سیاسی جماعت” بلوچ ریپبلکن پارٹی ” کی بنیاد رکھ دی۔اس وقت تک بلوچ سماج میں بلوچ نیشنل موومنٹ پہلی سیاسی جماعت تھی جس نے بلوچ جہد آزادی کی مکمل حمایت کی تھی اس کے علاوہ بعد میں بننے والی تنظیمیں جن میں بلوچ خواتین پینل، بلوچ بار کونسل، مری اتحاد، بلوچ ریپبلکن پارٹی اور بلوچ وطن موومنٹ نے بھی بلوچ قومی آزادی کو اپنا نصب العین بنایا۔جبکہ سیاسی تنظیموں میں بلوچ سٹوڈنٹس ارگنائزیشن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ پاکستانی قبضہ کے خلاف یہ پہلی سیاسی تنظیم ہے جو آج تک سماج میں متحرک ہے۔
بلوچ سماج میں ان سب تنظیموں اور جماعتوں کو یکجاء کرنا ایک مشکل امر تھا جبکہ اس سے مشکل کام یہ تھا کہ ان جماعتوں کو مستقل بنیادوں پہ ایک لڑی میں پرونا یا اس اتحاد کو طویل عرصے تک برقرار رکھنا۔ جو کہ یقیناً ایک ایسے سماج کے لیے انتہائی پیچیدہ عمل تھا جہاں مختلف خیالات کے حامل بہت سی تنظیمیں اور جماعتیں نئے سیاسی اطوار اور جدت کی جانب پیش قدمی کریں۔ لیکن اس کے باوجود آپ (شہید غلام محمد بلوچ) نے بلوچ قوم اور جہد کاروں کی اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے عملی اقدامات شروع کیے۔
کونسل سیشن کے بعد آپ شہید نے اپنے ہمنواؤں کے ساتھ بلوچ قوم کی یکجہتی کے لیے کوششیں تیز کردی۔ جس کے بعد بلوچ تحریک آزادی سے وابستہ جماعت بلوچ ریپبلکن پارٹیبلوچ طلباء تنظیم بلوچ سٹوڈنٹس ارگنائزیشن اور دیگر تنظیموں کی جانب سے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے اور اسی سال یعنی 2008ء میں بلوچ نیشنل فرنٹ کے نام سے تما م جماعتوں اور تنظیموں کا اتحاد قائم ہوا۔اتحاد میں تمام فریقین نے اس بات پہ اپنی رضا مندی ظہار کردی کہ وہ بلوچ نیشنل ازم کے فلسفے کے تحت بلوچ قومی آزادی کے لیے عملی کردار ادا کرتے رہینگے۔بلوچ قوم کایہ اتحاد زیادہ دیر اپنا وجود توبرقرار نہیں رکھ سکا لیکن جن دنوں یہ اتحاد قائم ہوگیا اس پہ بلوچ قوم نے اطمینان کا اظہار کیا اور وہ یہ سمجھنے لگے کہ اب بلوچ قوم،قومی یکجہتی کی وجہ سے اپنی منزل پہ پہنچنے میں کامیاب ہوگی اور اس کے ساتھ وفاق پرست پارٹیوں کا راستہ روکنے کے لیے یہ اتحاد اہم کردار نبھائے گا۔
ایک مختصر عرصے تک بلوچ نیشنل فرنٹ بخوبی اپنا کردار ادا کرتا رہا لیکن آپ کی شہادت کے کچھ عرصے بعد یہ اتحاد انا کی بھینٹ چڑھ گیاجسے آپ شہید نے اپنی سیاسی بصیرت سے قائم کیا تھا۔ اسی اتحاد کو ریاستی ایجنسیوں کے اہلکار اور ریاستی کاسہ لیس جماعتیں نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل اپنے سیاسی وجود کے لیے خطرہ خیال کرتے تھے لیکن سیاسی ناپختگی کی وجہ سے بعض عناصر نے اس اتحاد کا شیرازہ بکھیردیا۔

شہید غلام محمدبلوچ کی شہادت کی افواہ:۔
ریاست کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ اگر بلوچ قومی تحریک اس فراوانی کے ساتھ جاری رہا تو ممکن ہے کہ جلد بلوچستان ان کے ہاتھ سے نکل جائے۔شہید اکبرخان اور شہید بلاچ کی شہادت کے بعد جہاں پورے بلوچستان میں غصے کی ایک شدیدلہر اٹھی جس کی وجہ سے ریاستی مشینری مکمل جام ہوچکی تھی۔اب قابض ریاست ایسے اقدام کرنے سے پہلے اس کے اثرات کے بارے میں کچھ زیادہ ہی گہرائی سے سوچنے لگی۔قابض ریاست نے اپنی اسی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے3 نومبر2008 ء کو چیئرمین غلام محمدکے قتل کی افواہ پھیلائی جس پر بلوچ نیشنل موومنٹ نے اس ریاستی پروپیگنڈے کو بلوچ قومی تحریک کے خلاف سازش قرار دیا اور اس کے اگلے ہی دن پارٹی قائد چیئرمین غلام محمدبلوچ کا بیان سامنے آیا۔چیئرمین نے اس بیان میں یہ واضح کیا کہ ریاست مجھے قتل کر کے مفادپرستی کی سیاست کو فروغ دینا چاہتی ہے جو احمقانہ سوچ ہے۔

جان سولیکی کا اغواء:۔
2 فروری2009 ء کو اقوام متحدہ کے کارکن جان سولیکی کو کوئٹہ سے اغواء کیا جاتاہے۔ اس واقعے کی ذمہ داری ایک نئی بلوچ مزاحمتی تنظیم بلوچستان لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ نے قبول کرلی اس کے ساتھ ہی انہوں نے اقوام متحدہ اور پاکستان کے سامنے درج ذیل شرائط رکھے۔
۱۔141 لاپتہ بلوچ خواتین کی بازیابی۔
۲۔ چھ ہز ارلاپتہ افراد با زیاب کرائے جائیں۔
۳۔بلوچ قومی آزادی کے مسئلے کوحل کیاجائے۔ جان سولیکی کے اغواء کے بعد بلوچ جدوجہدنہ صرف بلوچستان بلکہ عالمی میڈیا کا بھی مو ضو ع بن گیا۔بلوچ مسلح جہد کاروں کی کامیاب حکمت عملی نے بلآخر ایک ایساکارنامہ سرانجام دیا جس نے دنیا میں بلوچ قومی مسئلے کو اجاگر کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ اکیسویں صدی کے جدید ترقی یافتہ دور میں ایسی بہتر ین گوریلا حکمت عملی بہت کم دیکھنے میں ملتی ہے جو بلو چ مزاحمت کاروں نے دکھا ئی۔ کامیاب گوریلہ حکمت عملی کے بعد سیاسی قائدین خاص کر شہید غلامحمد بلوچ نے اس مسئلے کو لیکر عالمی دنیا تک بلوچ قومی آزادی کا پیغام اور بلوچ تاریخ کے حوالے سے بخوبی اپنا کردار نبھا یا۔
9۱ فروری2009ء کو چیئرمین غلام محمد بیان دیتے ہیں کہ بلوچ قوم کی آزادی اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق تسلیم کیاجائے اورعالمی ادارے پاکستان کے بلوچستان پر جبری قبضے اوربلوچ قوم کیخلاف جارحیت اور وحشیا نہ کا روائیوں کے خاتمے کیلئے کردار ادا کریں۔
اسی دوران اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے آپ (شہید غلام محمد بلوچ) کی سربراہی میں ایک بلوچ دوست کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے۔ جو ایک جانب جان سولیکی کی رہائی کے لیے کوشاں تھی تو دوسری جانب آپ (شہید) نے اس کمیٹی کی توسط سے بلوچ مسئلے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں نیایت اہم کردار ادا کیا۔آپ کی ان کاوشوں کی وجہ سے جس میں بلوچ مسئلہ عالمی موضوع بن چکا تھا قابض ریاست سے برداشت نہیں ہورہاتھا۔جس کی وجہ سے ریاست کی جانب سے اس مسئلے پہ کوئی پیش رفت نہیں ہورہی تھی۔ قابض ریاست کی اس سرد مہری کو دیکھتے ہوئے 29 مارچ کو بلوچ قوم دوست کمیٹی نے بیان دیاکہ سولیکی اورلاپتہ بلوچوں کی بازیابی کیلئے حکومت مثبت جواب نہیں دے رہی ہے۔
اسی روز آپ (شہید غلام محمدبلوچ) نے کہا کہ جنگ آزادی لڑنے والے سرمچاروں نے بلوچ مسئلہ عالمی سطح پرپہنچا دیاہے۔
جان سولیکی کیس کے حوالے سے3اپر یل کو دواہم بیانات سامنے آتے ہیں۔
آزادی پسند مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن یونائٹیڈ فرنٹ (بی ایل یو ایف)نے کہاکہ حکومت واقوام متحدہ کی تاخیر کی سے جان سولیکی کی موت کے اسباب پیدا ہورہے ہیں جبکہ آپ شہید چیئرمین غلام محمدبلوچ پاکستانی ہٹ دھرمی کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت سولیکی کی رہائی میں رکاوٹ بن رہی ہے۔

تحریک آزادی میں جدت اور قابض کے سنگین اقدامات:۔
2008ء کے مرکزی کونسل سیشن کے بعد بلوچ قومی تحریک میں نمایاں تبدیلیاں رونماء ہورہی تھی۔پارٹی کارکنوں کی انتھک محنت سے بلوچ جہدِ آزادی کا پیغام گھر گھر پہنچ رہا تھا جس کے سبب بلوچ قوم ایک نئے جذبے کے ساتھ جہدِ آزادی میں عملی کردار ادا کرنے کے لیے تیار یوں میں مصروف تھی۔ جو اس جانب دلیل کرتی ہے کہ آپ شہید اور ساتھیوں کی جدوجہد کی وجہ سے بلوچ قوم میں احساس غلامی کا نمایاں عنصر دیکھنے کو مل رہا تھا،غلامی کا یہی احساس بلوچ قوم کو قومی تحریک سے وابسطہ کررکھا تھا لیکن آپ ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ہمیں ابھی بہت سے اقدامات کرنے ہیں،ایسے اقدامات جن پہ چل کر ہم آنے والے دنوں میں مستحکم بلوچستان تعمیر کرسکے۔کیونکہ فقط اس وطن کی آزادی یا دنیا کے نقشے پہ بلوچستان کے نام سے ہماری پہچان اس قوم کے اصل مسئلے کا حل نہیں ہمیں ایک ایسا بلوچستان چاہیے جس میں ہر فرد آزاد ہو،ہمیں ایسا وطن چاہیے جہاں کوئی کسی کا دست نگر نہ ہو، ہمیں ایسا وطن چاہیے جو آنے والی نسلوں کی ترقی کا ضامن ہو۔ایسے وطن کے لیے نہ صرف ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہیے بلکہ اس کے لیے قوم کے ہر فرد کو اپنا ہمنواء بنانے کی جدوجہد کرنی چاہیے تب جا کے ہم بلوچ قوم کے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاسکتے ہیں اور تب جا کے ہم شہیدوں کی قربانیوں کے ساتھ انصاف کرسکتے ہیں کیونکہ انہوں جس مقصد کے لیے جان قربان کی ہیں وہ ہے ایک آزاد بلوچ ریاست اور اس ریاست میں ہر انسان کی آزادی۔
8 فروری2009ء خضدار میں منعقد ہونے والے سینٹرل کمیٹی اجلاس میں آپ نے بلوچ جہد آزادی تیز کرنے کیلئے عوامی رابطہ مہم کا اعلان کیااور کہا کہ بلوچ جہد آزادی گرفتاریوں سے سبوتاژ نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچ وسائل کی لوٹ کھسوٹ کیلئے پاکستانی حکمران اور سامراجی قوتیں اپنی تمام صلاحیتیں بروے کار لا رہی ہیں۔اس لیے ہمیں اپنے کام میں جدت لانی چاہیے اور پارٹی کو ایسے خطوط پہ استوار کرنا چاہیے جس سے کام میں کبھی خلل نہ پڑے۔ آج بلوچ نیشنل موومنٹ قومی آزادی کیلئے کوشاں ہے، ان کاوشوں کو عملی جامہ پہنانا ہمارا فرض ہے اور اس فرض کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ایک انقلابی سوچ کی ضرورت ہے اور مجھے پارٹی کارکنوں کی صلاحیتیوں پہ پورا بھروسہ ہے کہ وہ انقلابی معیارکو بنیاد بنا کرقوم کی تربیت اور انہیں عملی جدوجہد کا حصہ بنائیں گے۔
رہائی کے بعد پاکستانی ایجنسیوں پارلیمانی کاسہ لیس بلوچیت کے دعویداروں نے آپ کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی۔کئی بار آپکے گھر پرقابض ریاستی فورسزنے دھاوا بولا، خواتین و بچوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی مگر انقلابی رہبر کے گھروالے ہمیشہ ثابت قدم رہے اور انکے قدم کبھی لرزاں نہیں ہوئے بلکہ وہ چیئرمین غلام محمد کے حوصلے بلند کرتے رہے۔
اسی دوران برطانیہ میں جلاوطں بلوچ آزادی پسند رہنماء حیربیار مری اوراس کے ساتھی فیض بلوچ کو برطانوی پولیس نے الزامات لگا کرگرفتار کر لیا اور برطانوی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا جسکے خلاف حیربیار مری اور فیض بلوچ کی حمایت میں بلوچستان بھر میں آپ شہید چیئر مین نے بلوچ نیشنل فرنٹ(بی این ایف) کے پلیٹ فارم سے احتجاجی سلسلہ شروع کردیا۔جلسے،جلوس،ریلی اور شٹرڈاون ہڑتال الغرض احتجاج کے لیے وہ تمام ذرائع بروئے کار لائیں جو جمہوری سیاست کا حصہ ہوتے ہیں۔قابض ریاست سے آپ کا یہ کردار برداشت نہیں ہورہا تھا اسی لیے قابض ریاست کے فورسز نے آپ کو اس عمل سے دور رکھنے کے لیے آپ کے خاندان والوں پہ ظلم کا ایک سلسلہ شروع کردیا جس میں آئے روز گھروں پہ چھاپے اور خاندان کے افراد کو ذہنی تشدد کا نشانہ بناناشامل تھا۔
26 فروری2009 ء کومند کے علاقے سورو میں آپ چیئرمین کی قیادت میں برطانیہ کی عدالتی کاروائی اور پولیس کے خلاف واجہ حیربیار مری اور فیض بلوچ کی حمایت اور بلوچستان میں پاکستانی بربریت اور ہزاروں بلوچوں کی قابض فرسز کے ہاتھوں اغواء اورنسل کشی کے خلاف ایک عوامی جلسہ منعقد ہوا۔ اس جلسے میں آپ شہید چیئرمین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ” آج بلوچ قومی تحریک کارکنان کی جدوجہد اور بلوچ قوم کی مکمل حمایت سے اس نہج پہ پہنچ چکی ہے کہ بلوچ اپنی منزل اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور آپ لوگوں کے اسی جذبے سے دشمن اتنا حواس باختہ ہوچکا ہے کہ وہ غیر انسانی اور غیر مہذب اقدامات پہ اتر آیا ہے اس کی واضح مثالیں جو ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں جن میں بلوچوں کی جبری گمشدیوں،آزادی پسندوں کے گھروں پہ آئے روز کے چھاپوں اوربلوچ قوم کی نسل کشی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں لیکن آج یہ ریاست اپنے آقا برطانوی سامراج کے ساتھ ملکر حیربیار مری اور فیض بلوچ کے خلاف جھوٹے مقدمات دائر کررہے ہیں جن کا مقصد فقط بلوچوں کو تحریک آزادی سے دور رکھناہے۔لیکن اس قابض ریاست پہ میں واضح کرتا ہوں کہ ہم آج بلوچ قوم تحریک آزادی کو شعوری بنیادوں پہ ایک ایسی راہ پہ گامزن کرچکے ہیں جس سے انہیں دستبردار کرنا نہ ہی آپ کے بس کی بات ہے اور نہ ہی آپ کے ان محکوم دشمن آقاؤں کے کہنے اور اوچھے ہتھکنڈوں سے ہم اپنے مقصد سے روگردانی کریں گے۔آپ جتنا ظلم کروگے آپ کو اتنی شدت سے اس کا رد عمل دیکھنے کو ملے گا اور یہ جلسہ اس بات کا ثبوت ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنی آزادی اور آپ کے ظلم کے خلاف موجود ہیں۔
اس جلسے میں آپ نے مزید کہا کہ ریاست ظلم و جبر کرکے غلام محمدکو تو ختم کرسکتا ہے لیکن آزادی کی اس سوچ کو جو آج ہر بلوچ کے دل ودماغ میں پیوست ہوچکا ہے اسے ختم کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
مند میں منعقد ہونے والے جلسے کی کامیابی نے بلوچ قوم کی بلوچ قومی تحریک سے وابستگی کو ریاست کے سامنے عیاں کردیا جس سے قابض ریاستی فورسز حرکت میں آگئے اور انہوں اسی رات شہید غلام محمد بلوچ، میرے گھر اور علاقے میں دیگر بہت سے گھروں پہ چھاپے مارے۔ اس آپریشن میں پاکستانی فورسز کے پچاس (50)سے زائد گاڑیوں میں سوار سینکڑوں پاکستانی فوجیوں نے حصہ لیا اور پورے علاقے کو گھیرے میں لیکر گھر گھر تلاشی کا سلسلہ شروع کردیا۔ سب سے پہلے انہوں شہید غلام محمد بلوچ کے گھر میں ہلڑمچادی جہاں گھر میں موجود لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعدقیمتی سامان لوٹ کر اپنی گاڑیوں میں لادنے لگے۔ شہید غلام محمد بلوچ جلسے کے بعد اسی شام تربت چلے گئے جہاں اگلی صبح ان کی عدالت میں پیشی تھی۔جب شہید غلام محمد بلوچ ان کے ہاتھ نہیں لگا تو انہوں نے میرے گھر کے ساتھ دیگر گھروں پہ بھی چھاپے مارنے اور لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔اس دوران انہوں مجھے گھسیٹ کر گھر سے باہر نکالا اور آنکھوں پہ سیاہ پٹی اور ہاتھوں کوکس کے باندھ کر اپنے ساتھ لے گئے۔ یہ میری دوسری گرفتاری تھی۔اس سے پہلے مجھے یکم جنوری2006 ء کو دوران ڈیوٹی رورل ہیلتھ سینٹر مند سورو سے ایف سی اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے صبح کے9بجے چھاپہ مارکر اپنے ساتھ ایف سی کیمپ لے گئے وہاں دو(2)دن رکھنے کے بعد مجھے مند پولیس تھانے کے حوالے کردیاگیا جہاں سے ایک مہینے بعد میری رہائی ممکن ہوئی۔ لیکن اس دفعہ مجھے جبری طور پہ اغواء کرنے بعد تربت میں موجود خفیہ اداروں کے قائم کردہ عقوبت خانے کی نظر کردیا۔
پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے اہلکار اس عقوبت خانے میں مجھے لگاتار جسمانی تشدد کا نشانہ بناتے گئے۔دوران تشدد وہ یہ پوچھتے رہے کہ غلام محمد کہا ں ہے اور اسے پاکستان توڑنے کے لیے کو فنڈنگ کون کرتا ہے؟اس مرتبہ ان کا تشدد انتہائی شدید تھا جس کی وجہ سے مجھ پہ دن میں کہیں بار غشی طاری ہوتی تھی جب میں ہوش میں آجاتا تو وہ دوبارہ تشدد کا سلسلہ شروع کرتے۔وہ اکثر یہ کہتے کہ غلام محمد” را ”کا ایجنٹ ہے اور یہ سب وہ انڈین خفیہ ایجنسی را کے کہنے پہ کررہا ہے۔وہاں موجود خفیہ ادارے کے ایک اہلکار نے قریباً چلاتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ سب انڈیا کے ایجنٹ ہو اسی لیے پاکستان توڑنے اور بلوچستان کی آزادی چاہتے ہو اور ہم کسی بھی ایسے فرد کو برداشت نہیں کرتے جو بلوچستان کی آزادی کی سوچ بھی رکھتا ہواور میں جانتا ہوں کہ تم سب سرمچار ہو جو پاکستان میں بے گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہو۔تم لوگ دہشت گرد ہو اور دہشت گردوں کے لیے ہم موت سے بھی بد تر سزا تجویز کرتے ہیں۔
وہ تشدد کرتے رہے اور میں یہ ظلم سہتا رہا اس جسمانی تشدد کی وجہ سے ایک ہاتھ قریباً جواب دے چکا تھا لیکن اس کے باوجود میرا ان کے لیے فقط یہی جواب تھا کہ غلام محمد بلوچ میرا بھائی ہونے کے ساتھ ایک سیاسی پارٹی کا سربراہ بھی ہے اور میرا تعلق اسی سیاسی پارٹی سے ہے۔اور ہم جمہوری جدوجہد کے حامی ہیں اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔مسلح تنظیموں کے بارے میں کچھ نہیں جانتا اور یہ فنڈز اور پیسے کہاں سے آتے ہیں میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا۔غلام محمدبلوچ کو پہلے بھی آپ کے ایجنسیوں نے اغواہ کرکے نو(9) ماہ سے زائد عرصے تک تشدد کا نشانہ بناتے رہے ہو لیکن آپ لوگ یہ ثابت نہیں کرسکے کہ غلام محمدبلوچ کو فنڈنگ کون کرتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں کوئی بھی مدد نہیں کررہا کیونکہ ہماری جدوجہد جمہوری ہے جسے ہم بلوچ نیشنل موومنٹ کے پلیٹ فارم سے آگے لے جارہے ہیں۔میری باتوں سے انہیں مزید طیش آگیا اور انہوں مجھ پہ شدید تشددشروع کیا۔
میں یہ جان چکا تھا کہ میری گرفتاری سے قابض ریاست کا مقصد یہ تھا کہ غلام محمد اپنے بھائی کے لاپتہ ہونے کی وجہ سے شاید آزادی کی راہ سے ہٹ جائے۔لیکن غلام محمد بلوچ کی سوچ جس کی بلندی آسمانوں کو چھو رہی تھی وہ اس معمولی واقعہ سے کیسے پست ہوسکتی تھی۔
جب ان کا ظلم برداشت سے باہر ہوجاتا تو میں ڈاکٹراللہ نذر بلوچ اور شہید غلام محمد بلوچ پہ ڈھائے گئے مظالم کاتصور کرتا کہ انہوں اس قوم اور وطن کے لیے کتنی اذیتیں سہے لیکن مجال کہ ان کے نظریے اور سوچ میں کوئی فرق آیا ہو۔ اس تصور سے مجھ میں حوصلہ پیدا ہوتا اور میں خود کو پہلے سے زیادہ توانا محسوس کرتا۔ تشدد کا یہ سلسلہ یوں ہی تین (3)دن تک لگاتار چلتا رہا اس دوران وہ مجھے مراعات کا لالچ بھی دیتے رہے لیکن میں نے انکی ہر خواہش ٹھکرادی جس پہ وہ شدید تشد کرتے گئے۔
آج جب میں ان دنوں کو یاد کرتا ہوں جہاں مجھ جیسے کمزور انسان پہ ظلم کے پہاڑ گرائے گئے اور میں ثابت قدم رہا۔تو اس کی سب سے بڑی وجہ شہیدغلام محمد بلوچ تھے جو مجھ سے عمر میں چھوٹا اور علم،آگہی، نظریے اور فکر میں مَیں شہید غلام محمد سے کوسوں دور تھا۔ انہوں نے جس نظریے اور فکر کی بنیاد پہ میری تربیت کی اس نے مجھ میں قوم اور وطن کے لیے برداشت کی قوت پیدا کی حالانکہ یہ ظلم سہنے سے پہلے مجھے یہ یقین ہی نہیں تھا کہ یوسف میں اتنی طاقت ہوگی۔جب میں خود کو دیکھتا ہوں کہ ذہنی اور جسمانی کمزوری کے باوجود میں شہید کی تربیت کی وجہ سے مقصد پہ جان نچاور کرسکتا ہوں تو مجھے یہ حوصلہ ملتا ہے کہ قوم کے وہ فرزند جومجھ سے زیادہ قوت رکھتے ہیں وہ کبھی ٹوٹ نہیں سکتے۔ یہ خوش قسمتی ہے میرے قوم کی جنہیں غلام محمد بلوچ جیسا لیڈر نصیب ہوا جنہوں نے اس قوم کے لیے ایسی راہوں کا تعین کیا جو یقیناً بلوچ قوم کی طویل غلامی کے خاتمے کا سبب بنے گا۔
دوران تشددآئی ایس آئی کے اہلکار مجھے دھمکاتے رہے کہ غلام محمد کوجان سے مار دینگے، آپ کو آپ کے پورے خاندان کوبھی صفحہ ہستی سے مٹادینگے اور ایسی موت مارینگے تا کہ آئندہ اس پورے خطے میں کوئی آزادی کی بات کرنے کی جرات نہ کرسکے۔ میرے مفلوج زبان سے یہی نکلتارہا کہ آپ لوگ سب کچھ کرسکتے ہو۔اتنا دھمکانے کے بعد وہ پھر سے تشدد کرتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ بنگالیوں پہ ہم نے کم ظلم ڈھائے تھے لیکن تم لوگوں کوہم دنیا کے لیے نشان عبرت بنائیں گے تا کہ پھر دنیا میں کوئی سر نہ اٹھا سکے۔تم بڑے انقلابی بنے پھرتے ہو لیکن تمہار ا جو انجام ہوگا اس کے بعد کوئی بلوچ کبھی انقلاب کا نام اپنی زبان پہ نہیں لائے گا۔
پھر اچانک مجھے مفلوج حالت میں یکم مارچ2009ء کورات کے اندھیرے میں تر بت سٹی تھانے میں پھینک کر پولیس کے حوالے کردیاگیاجہاں مجھ پر چار جھوٹے مقدمات دائر کردیے گئے۔اگلے دن مجھے اسی مفلوج حالت میں انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔جسمانی تشدد کی وجہ سے میرے ہاتھ پاؤں ٹھیک سے کام نہیں کررہے تھے نہ مجھ سے چلاجارہا تھا نہ ہی ہاتھوں میں کچھ تھام سکتا تھا۔
جب ہمارے گھروں پر چھاپے اور مجھے جبری طور پرلاپتہ کرنے کی خبر آپ چیئرمین کو ملا تو آپ تربت سے فوراً مند آکرقابض فورسز کے ہاتھوں میری جبری گمشدگی کے خلاف اپنی قیادت میں عوامی ریلی نکالی۔ جب میرے منظر عام پر آنے کی اطلاع آپ کو مل گئی تو آپ (شہید غلام محمد بلوچ) اور شہید آصف جان مجھ سے ملنے تربت آگئے۔میری حالت دیکھ کر آپ شہید کے چہرے کے تاثرات میں پڑھ سکتا تھا جہاں میری اس حالت کی وجہ سے رنج و غم کے بادل چھائے ہوئے تھے لیکن آپ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ راہِ انقلاب میں ایسے واقعات روز کا معمول ہیں اور آنے والے دنوں میں ان میں مزید شدت آئیگی اس دوران دوستوں کی ثابت قدمی ہی ہماری کامیابی کا ضامن ہوسکتی ہے۔مجھے فخر ہے کہ آپ ثابت قدم رہے اور امید ہے کہ آئندہ بھی آپ اسی قوت کا مظاہرہ کرینگے۔
جب میں آپ چیئرمین کی حوصلہ افزاء باتیں سن رہا تھا تو میرے حوصلے آسمان کو چھونے لگیں۔میں نے فقط یہ کہا کہ مجھے فخر ہے اس بات پہ کہ آپ میرے رہنماء ہو اور میں آپ کا ایک ادنیٰ کارکن جس کی گرفتاری سے آپ کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔
اس کے بعد مجھے سینٹرل جیل منتقل کیا گیا جہاں سے16 مارچ2009ء کو ضمانت پہ میری رہائی ممکن ہوئی۔جب میں گھر پہنچا تو گھروالوں نے فخریہ میرا استقبال کیا نہ کوئی آہ و زاری نہ کسی کی آنکھ میں نمی بلکہ گھر والوں میں میں نے انقلابی رویے محسوس کیے اوریہ سب شہید غلام محمد بلوچ کی تربیت کا اثر تھا جنہوں نے خاندان کو اس نہج پہ پہنچایا جہاں وہ وطن اور قوم کے لیے تمام تکالیف برداشت کرنے کے قابل ہوچکا تھا جس کے ثبوت بعد میں آنے والے واقعات ہیں۔

Share This Article
Leave a Comment