مرگاپ آزادی کے لیے پیاسا ہے ،شہدائے مرگاپ کی سولہویں برسی پر پمفلٹ کا اجراء

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کی مرکزی نشرواشاعت کی جانب سے شہدائے مرگاپ بی این ایم کے بنیادکار شہید غلام محمد بلوچ ، لالہ منیر بلوچ اور شیر محمد بلوچ کی سولہویں برسی پر "پیاسا مرگاپ” کے نام سے ایک پمفلٹ کا اجرا کیاجس میں کہا گیا کہ سانحہ مرگاپ بلوچستان میں ‘مارو اور پھینکو’ پالیسی کی شروعات تھی، جو آج تک جاری ہے ۔

پمفلٹ میں کہا گیا کہ جس دن سے بلوچستان بیرونی حکمرانوں کے تسلط میں مقبوضہ ہے، بلوچ کی زندگی خوشیوں سے محروم ہے۔ قابض کے نزدیک بلوچ کی حیثیت کسی مویشی سے بھی کم تر ہے، کیونکہ مالک کو اپنے مویشی کی زندگی پیاری ہوتی ہے اور وہ اسے بیماریوں اور درندوں سے محفوظ رکھتا ہے، مگر قابض کا ہدف محکوم قوم کو نیست و نابود کرنا ہوتا ہے۔ جیسے مال مویشی باندھ کر رکھے جاتے ہیں، اسی طرح محکوم اقوام کو بھی پابند کیا جاتا ہے اور ان سے زندگی کی ہر آزادی چھینی جاتی ہے۔ بلوچ بھی اپنے حق حاکمیت سے محروم ہے اور دنیا کی محکوم و مظلوم اقوام میں نمایاں ہے۔

پمفلٹ میں لکھا گیا کہ ایسے حالات میں اقوام کے اندر ایسے مزاحمت کار رہنما پیدا ہوتے ہیں جو اپنی قوم کو مٹنے سے بچانے کے لیے قابض کے سامنے ڈٹ جاتے ہیں۔ انہی میں سے ایک شہید غلام محمد بلوچ بھی تھے۔ بلوچ نے ہر دور میں قابضین کے خلاف مزاحمت کی ہے، اور ہر دور کے تقاضوں کے مطابق بلوچ رہنماؤں نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ 1974 میں واجہ غلام محمد بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (بی ایس او) کے رکن بنے، قوم دوستی اور قومی سیاست سیکھی، اور اپنی ثابت قدمی، طویل سیاسی سفر، علم و آگاہی اور استقامت کے باعث 1990 میں تنظیم کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 1992 میں آپ بلوچستان نیشنل موومنٹ (بی این ایم) میں شامل ہوئے۔ اُس وقت بی این ایم کے رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ وہ بلوچستان کی خودمختاری اور حق حاکمیت کے لیے جدوجہد کریں گے۔ چونکہ پاکستان ایک ظالم اور قابض ریاست ہے جو بندوق کے علاوہ کوئی زبان نہیں سمجھتی، اس لیے اُس وقت بی این ایم کی پالیسی میں قابض کے خلاف مسلح جدوجہد بھی شامل تھی۔ پارٹی خفیہ طور پر پاکستان کے ساتھ جنگ کی تیاری کر رہی تھی، مگر 1988 میں فدا احمد کو شہید کر دیا گیا، جو چاہتے تھے کہ بی این ایم پاکستانی پارلیمانی سیاست کا حصہ نہ بنے۔ فدا احمد کے قتل کے بعد، بی این ایم کے منحرف رہنماؤں نے پارٹی کو پاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ بنایا اور مزاحمت سے دور ہو گئے۔

پمفلٹ میں مزید کہا گیا کہ واجہ غلام محمد بلوچ نے اس خاموش انحراف کو قبول نہیں کیا اور بی این ایم کو اس کے بنیادی اصولوں پر قائم رکھا۔ بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے پارلیمانی سیاست سے مکمل علیحدگی کا اعلان اور بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ بی این ایم بلوچستان کی وہ پہلی جماعت بنی جس نے واضح طور پر آزادی کا مطالبہ کیا، اور 2008 کے سیشن میں پارٹی کے آئین سے ‘حق خود ارادیت’ کو نکال کر صاف الفاظ میں ‘آزادی’ کا مطالبہ شامل کیا گیا۔ واجہ غلام محمد بلوچ کی قیادت میں بی این ایم نے بلوچ سرمچاروں کی حمایت کی اور بلوچ کو مزاحمت کی ترغیب دی، مگر وہ خود مسلح نہیں تھے۔ دشمن جانتا تھا کہ اگر غلام محمد بلوچ کا راستہ نہ روکا گیا تو ان کی قیادت میں بلوچ جلد ہی پاکستان کی غلامی کی زنجیریں توڑ دیں گے۔ اسی لیے غلام محمد اور شیر محمد اغوا اور جبری گمشدہ کیا گیا۔ رہائی کے بعد بھی آپ آزادی کی تحریک کے رہنما کے طور پر آگے بڑھتے رہے، نہ آپ کے خیالات بدلے، نہ آپ کا کردار۔

پمفلٹ میں شہدائے مرگاپ کیجبری گمشدگی و عدالتی کارروائیوں کو بیان کرتے ہوئے کہا گیاکہ شہید غلام محمد بلوچ کو شال، تربت اور کراچی کی عدالتوں میں مقدمات میں الجھایا گیا۔ 3 اپریل 2009 کو آپ تربت میں بلوچ ریپبلکن پارٹی (بی آر پی) کے نائب صدر شیر محمد بلوچ اور بی این ایم کے لالا منیر بلوچ کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے پاکستانی فوج کے جھوٹے الزامات مسترد کرتے ہوئے تینوں کو بری کر دیا، مگر پاکستانی فوج نے انھیں عدالت کے احاطے سے واجہ کچکول ایڈوکیٹ کے دفتر سے اغوا کیا اور مرگاپ کے مقام پر قتل کر دیا۔ ان کے جسد 8 اپریل کو ملے اور 9 اپریل 2009 کو انھیں سپرد گلزمین کیا گیا۔

آخر میں کہا گیا کہ سانحہ مرگاپ بلوچستان میں ‘مارو اور پھینکو’ پالیسی کی شروعات تھی، جو آج تک جاری ہے اور جس کا نشانہ بلوچ قوم دوست ہیں۔ غلام محمد بلوچ اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا، مگر آج بھی مرگاپ آزادی کے لیے پیاسا ہے اور بلوچستان میں آزادی کی تحریک پورے عزم کے ساتھ جاری ہے۔

Share This Article