بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے بدھ کے روزخضدار میں ایک بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کا جلسہ سابقہ جلسوں سے بالکل مختلف ہے، جس میں ہزاروں لوگوں کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ بلوچستان کے وارث آج بھی زندہ ہیں۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی گرفتار قیادت و خواتین کی رہائی کے لئے بی این پی کے جاری تحریک کے سلسلے میں خضدار میں منعقدہ بڑے عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سے ووٹ کے بدلے ننگ و ناموس کی وارثی کی امید نہ رکھی جائے۔ اگر مجھے ایسی اسمبلی میں بیٹھنے کی اجازت نہیں جہاں لاپتہ بچوں، ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کے سوال اٹھائے جا سکیں، تو ایسی اسمبلی میرے لیے بے فائدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سے ووٹ کے بدلے ننگ و ناموس کی وارثی کی امید نہ رکھی جائے۔ اگر مجھے ایسی اسمبلی میں بیٹھنے کی اجازت نہیں جہاں لاپتہ بچوں، ماوں، بہنوں اور بیٹیوں کے سوال اٹھائے جا سکیں، تو ایسی اسمبلی میرے لیے بے فائدہ ہے۔
سردار مینگل نے کہا کہ انہوں نے بغیر ووٹرز کے مشورے کے استعفیٰ دیا لیکن وہ اس فیصلے سے مطمئن ہیں۔
انہوں نے عوام سے پوچھا کہ کیا میرا فیصلہ درست تھا؟ اگر آپ کہتے ہیں درست تھا، تو پھر وہی درست ہے۔ مجھے لاڑکانہ، کراچی یا لاہور کے لوگوں کا مشورہ درکار نہیں، میرا تعلق خضدار، بلوچستان اور بلوچ عوام سے ہے۔
بی این پی رہنما نے کہا کہ حکومت کے ہاتھوں بلوچستان میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور ہماری خواتین کے خلاف مظالم کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خواتین کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اسلام آباد کی طرف ریلی لے گئیں، اور اس ملک میں تو مرے ہوئے دل کے ٹکڑے پر بھی رونے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
سردار اختر مینگل نے کہا کہ "ہمیں دعا مانگنے تک سے روکا جا رہا ہے، مستونگ میں ہمارے ایک مولوی کو دعا کے لیے دھمکی دی گئی، خودکش دھماکوں سے ہمیں ڈرایا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگلے انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار خود ان سے مذاکرات کے لیے آ رہے ہیں، اور حکومت نے ہمارے جلسے کو ناکام بنانے کے لیے سڑکیں بند کیں، پروپیگنڈہ کیا۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگر ہمارے پاس کوئی قوت نہیں تو پھر سڑکیں بند کیوں کی گئیں؟
سردار اختر مینگل نے دو مئی کو کوئٹہ میں ایک بڑے جلسے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اس جلسے میں وہ اپنے اگلے اقدامات اور مقابلے کی تیاری کا اعلان کریں گے۔
انہوں نے اپنی تقریر کے آخر میں کہا کہ "ہماری تحریک بلوچ خواتین کی رہائی تک جاری رہے گی۔”
انہوں نے کہا کہ بنگال میں جو نفرت پھیلی، اس نے ملک کو دو ٹکڑے میں تقسیم کیا۔ آج وہی نفرت بلوچستان میں پھیل چکی ہے، اور اس کے نتائج جلد سامنے آئیں گے۔