ایران اور امریکہ کے درمیان ایٹمی مذاکرات کا دوسرا دوربھی اختتام پذیر

ایڈمن
ایڈمن
9 Min Read
فوٹو بشکریہ اے پی

ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا دوسرا دور سنیچر کے روز روم میں ہوا۔

مذاکرات کے اختتام پر دونوں ممالک نے اگلے ہفتے دوبارہ ملاقات پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم فوجی کارروائی کی دھمکیوں اور ملے جلے پیغامات کی وجہ سے زیادہ امیدیں نہیں لگائی جا سکتیں کہ ان مذاکرات سے کشیدگی میں کمی واقع ہو گی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تقریباً روز ہی تہران کو یاد دلاتے نظر آتے ہیں کہ اس کے پاس دو ہی آپشنز ہیں: معاہدہ یا جنگ۔

وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی قیادت اسرائیل کرے گا۔

گذشتہ ہفتے بدھ کے روز، نیویارک ٹائمز نے ایک خبر شائع کی تھی کہ صدر ٹرمپ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کے اسرائیلی منصوبے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔

جمعرات کے روز اس خبر کے حوالے سے جب ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ بالکل بھی جلدی میں نہیں ہیں اور سفارت کاری کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔

’میں سمجھتا ہوں کہ ایران کے پاس ایک عظیم ملک بننے اور تباہی کے بغیر خوشی سے جینے کا موقع ہے… یہ میرا پہلا آپشن ہے۔ اگر دوسرا آپشن ہوتا ہے تو میرے خیال میں وہ ایران کے لیے بہت برا ہوگا۔‘

دونوں فریقوں کی جانب سے گذشتہ ہفتے کے آخر میں عمان میں ہونے والی بات چیت کے پہلے دور کو تعمیری قرار دینے کے بعد، ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ ’ایران کے حوالے سے بہت جلد فیصلہ کریں گے۔‘

ایران چاہے کچھ بھی کہے لیکن بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایران کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لانے میں فوجی کارروائی کی دھمکی کا بھی کردار ہے۔

ایرانی رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی ویب سائٹ پر موجود بیان کے مطابق تہران امریکی اور اسرائیلی حملوں کے خوف سے نہیں بلکہ مذاکرات پر صرف اس لیے راضی ہوا ہے کیونکہ امریکہ نے اپنے مطالبات کو جوہری مسئلے تک محدود رکھا ہے۔

تاہم اب بھی یہ بات یقین سے نہیں کی جا سکتی کہ دونوں فریق کسی معاہدے تک پہنچ پائیں گے۔

امریکی مذاکراتی ٹیم کی قیادرت کرنے والے مشرق وسطیٰ کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیو وِٹکوف نے منگل کو ایکس پر جاری اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ حتمی معاہدہ ایسا ہونا چاہیے جس سے نہ صرف مشرق وسطیٰ میں امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے ایک فریم ورک ملے بلکہ ایران اپنے جوہری افزودگی اور ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کردے۔

اس بیان سے ایک روز قبل ہی انھوں نے فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی جاری رکھنے کی اجازت دی جا سکتی ہے۔

انھوں نے 2015 کے ایرانی جوہری معاہدے میں مقرر کردہ حد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران کو 3.67 فیصد سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے کی ضرورت نہیں۔

ایرانی وفد کے سربراہ ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے وٹکوف کے بیانات میں موجود ’تضاد‘ کی نشاندہی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ’اصل پوزیشن مذاکرات کی میز واضح ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے متعلق پائے جانے والے ممکنہ خدشات کو دور کرنے اور اس کے حوالے سے اعتماد پیدا کرنے کے لیے تیار ہے لیکن یورینیم کی افزودگی کے اصول پر سمجھوتا نہیں ہوگا۔

سنیچر کے روز ہونے والے مذاکرات سے قبل کافی سفارتی ہلچل بھی دیکھنے میں آئی۔

سعودی عرب کے وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان نے جمعرات کے روز تہران کا دورہ کیا اور اپنے والد شاہ سلمان کا ذاتی پیغام آیت اللہ خامنہ ای کو پہنچایا۔ انھوں نے ایران کے صدر مسعود پزشکیان سے بھی ملاقات کی۔

ایران پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ کسی بھی امریکی فوجی کارروائی کے جواب میں وہ خطے میں موجود امریکی اڈوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ان میں سے اکثر اڈے ایران کے عرب پڑوسی ممالک میں ہیں۔

اسی دوران ایران کے وزیرِ خارجہ نے ماسکو کا دورہ کیا اور خامنہ ای کا ایک خط روسی صدر ولادیمیر پوتن تک پہنچایا۔

یوکرین میں جنگ کے آغاز کے بعد سے ایران اور روس کے مابین فوجی تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ تہران پر ماسکو کو ڈرونز فراہم کرنے کا الزام بھی لگتا آیا ہے۔

تقریباً 10 روز قبل روسی پارلیمنٹ نے ایران اور روس کے درمیان 20 سالہ سٹریٹجک شراکت داری معاہدے کی توثیق کی تھی۔ تاہم اس معاہدے میں باہمی دفاعی شق شامل نہیں۔

دریں اثنا، گذشتہ ہفتے بین الاقوامی ایٹمی انرجی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی نے تہران کا دورہ کیا اور ایرانی جوہری حکام اور وزیر خارجہ سے ملاقاتیں کیں تاکہ کشیدگی کم کی جا سکے اور معائنہ پروٹوکول کو بحال کیا جا سکے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد سے آیت اللہ خامنہ ای نے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کی مسلسل مذمت کی ہے۔

فروری میں ایک تقریر کے دوران ان کا کہنا تھا کہ اس انتظامیہ کے ساتھ بات چیت عقلمندی کا تقاضہ نہیں۔

بظاہر ایرانی رہبرِ اعلیٰ کی عدم اعتماد کی وجہ جوہری معاہدے سے ٹرمپ کی دستبرداری، 2020 میں عراق میں امریکی حملے میں جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور صدر ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد ایران پر ’زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ کی مہم کا اعلان ہے۔

آیت اللہ خامنہ ای نے مذاکرات کے پہلے دور پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسے احسن طریقے سے کیا گیا ہے۔

لیکن انھوں نے خبردار کیا ہے کہ اس مذاکراتی عمل سے نہ تو وہ سے زیادہ پر امید ہیں اور نہ ہی حد سے زیادہ مایوس۔

وہ پہلے بھی خبردار کر چکے ہیں کہ ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی صورت میں تہران جوابی کارروائی ضرور کرے گا۔

ان کے مشیر علی لاریجانی سمیت بعض عہدیداروں نے یہاں تک کہا ہے کہ اگر حملہ کیا گیا تو ایران ایٹمی ہتھیار بنانے پر ’مجبور‘ ہو جائے گا۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان جوہری معاہدے کے حوالے سے مذاکرات براہ راست ہو رہے ہیں جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ مذاکرات بالواسطہ ہیں اور عمان بطور ثالث دونوں فریقین کے درمیان تحریری نوٹوں کے تبادلے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔

مسقط میں مذاکرات کے پہلے دور کے بعد عراقچی کا کہنا تھا کہ انھوں نے سفارتی آداب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے وٹکوف سے ایک مختصر ملاقات کی ہے۔

امریکی نیوز ویب سائٹ ایگزیوز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ دونوں چیف مذاکرات کاروں کے درمیان ہونے والی یہ ملاقات 45 منٹ تک جاری رہی۔

تہران رازداری کو ترجیح دیتا ہے جبکہ واشنگٹن پبلسٹی چاہتا ہے۔

دونوں فریقوں کی جانب سے پہلے دور کے بارے میں مثبت بیانات سامنے آنے کے بعد، ایران کی کرنسی میں 20 فیصد اضافہ ہوا۔

ایران کی قیادت ملک کو درپیش مشکل معاشی حالات پر عوامی عدم اطمینان اور اس کے نتیجے میں عوامی مظاہروں کے امکانات سے بخوبی واقف ہے۔

ایران صرف فوجی کاروائیوں سے نہیں بلکہ ملک میں ہونے والے احتجاج کے امکانات سے بھی خوفزدہ ہے۔

Share This Article