یمن کی اہم بندرگاہ پر امریکی فوج کا حملہ، 33 افراد ہلاک

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

حوثیوں کے زیر انتظام ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ جمعرات کے روز مغربی یمن میں راس عیسیٰ نامی ایک اہم بندرگاہ پر امریکی حملوں میں کم از کم 33 افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں متعدد پیرا میڈکس بھی شامل ہیں۔

امریکی فوج کے اس حملے کو ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں پر حملوں کے آغاز کے بعد سے اب تک کا مہلک ترین حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے رائیٹرز نے یمن کے المسیرہ ٹی وی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج کے مطابق ان حملوں کا مقصد حوثی جنگجوؤں کو ایندھن فراہم کرنے والے ایک بڑے ذریعہ کو تباہ کرنا تھا۔ اس حملے میں متعدد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

پینٹاگون نے فوری طور پر حوثیوں کی جانب سے ہلاکتوں کی تعداد پر کسی بھی قسم کا بصرہ نہیں کیا ہے۔

امریکی سینٹرل کمانڈ نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ ’ان حملوں کا مقصد حوثیوں کی طاقت کے معاشی ذرائع کو کم کرنا تھا جو اپنے ہم وطنوں کا استحصال کر رہے ہیں اور انھیں شدید تکلیف پہنچا رہے ہیں۔‘

امریکہ نے گذشتہ ماہ حوثی جنگجوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر حملے شروع کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’حوثیوں کے خلاف یہ کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گے کہ جب تک وہ بحیرہ احمر سے گُزرنے والے مال بردار بحری جہازوں پر اپنے حملے بند نہیں کرتے۔‘

نومبر 2023 سے اب تک حوثی جنگجوؤں نے آبی گزرگاہ سے گزرنے والے مال بردار بحری جہازوں پر درجنوں ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں اور ایسا کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے اُن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’وہ (حوثی) غزہ کی جنگ کے خلاف احتجاج کے طور پر اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔‘

تاہم غزہ میں دو ماہ کی جنگ بندی کے دوران حوثیوں کی جانب سے اس اہم آبی گُزر گاہ کا استعمال کرنے والے کسی بھی مال بردار بحری جہاز کو نشانہ نہیں بنایا تھا۔ اگرچہ انھوں نے گزشتہ ماہ غزہ پر اسرائیل کے حملے کی تجدید کے بعد دوبارہ حملے شروع کرنے کا عہد کیا تھا، لیکن اس کے بعد سے انھوں نے کسی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق امریکی افواج کی جانب سے جمعرات کے روز ہونے والا یہ حملہ جنوری میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مشرق وسطیٰ میں حوثی جنگجوؤں پر ہونے والے حملوں میں سے مہلک ترین حملہ تھا۔

Share This Article