چھ سینئر ڈیموکریٹس نے امریکہ کے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’وفاقی سیکیورٹیز کے قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیوں‘ کی چھان بین کرے۔
سابق صدارتی امیدوار اور موجودہ سینیٹر الزبتھ وارن کے دستخط شدہ خط میں کہا گیا ہے کہ ’ہم ایس ای سی پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ آیا ٹیرف کے اعلانات کے بعد مارکیٹ کا کریش ہونا اور بعد ازاں جزوی بحالی کا کوئی فائدہ ٹرمپ انتظامیہ یا ان کے دوستوں کو پہنچا ہے‘
خط میں ٹرمپ کی طرف سے عائد کردہ حالیہ ٹیرف کو ’بے ہنگم‘ اور ’فضول‘ قرار دیا گیا ہے تاہم یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدر کی جانب سے اپنے نام نہاد ’باہمی‘ ٹیرف کے منصوبے کو روکنا ان کی تشویش کا باعث ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’ہماری قوم کے پاس انسائڈر ٹریڈنگ اور مارکیٹ میں ہیرا پھیری کو روکنے کے لیے سخت قوانین ہیں۔‘
سینیٹرز کے گروپ نے ایس ای سی پر زور دیا کہ وہ ٹیرف کے اعلانات کی تحقیقات کرے کہ آیا ان سے ٹرمپ یا ان سے وابستہ افراد کو فائدہ پہنچا۔
اس خط پر چک شومر، رون وائیڈن، مارک کیلی اور روبن گیلیگو اور ایڈم شِف کے دستخط بھی تھے، جنھوں نے 25 اپریل تک ایس ای سی سے جواب دینے کی درخواست کی کہ آیا امریکی صدر کے ٹیرف کے اقدامات کی تحقیقات کا کوئی منصوبہ ہے۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ایک پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں۔‘
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری پریس بیان جس کا عنوان تھا کہ ’صدر ٹرمپ کا ٹیرف کیوں ضروری ہے‘ میں وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ تجارتی پالیسیاں کئی دہائیوں سے امریکہ کو ناکام بنا رہی ہیں۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ’امریکی صنعت کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے‘ پہلے ہی کام جاری ہے۔
جنوری میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کئی ممالک اور بڑی کمپنیاں امریکہ میں سرمایہ کاری کرنے پر غور کر رہی ہیں یا اس کا عہد کر رہی ہیں۔
بیان میں جن مثالوں کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں سے ایک امریکی ٹیکنالوجی کمپنی ایپل ہے جس نے فروری میں امریکہ میں تربیت سازی اور آلات کی تیاری کے لیے پانچ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا کہا تھا۔