بلوچ یکجہتی کمیٹی کے رہنما سمی دین بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری ہے ۔28 فروری کو مشکے کے ایک گاؤں پر فورسز نے چھاپہ مار کر 8 بلوچ نوجوانوں کو ان کے اہلِ خانہ کے سامنے حراست میں لے کر جبری طور پر لاپتہ کیا۔
اور 2 مارچ کو سہ پہر تین بجے، ان میں سے چار نوجوانوں کامران علیم، معراج، مومن اسلم، اور حفیظ کی لاشیں ایک ویران مقام پر گولیوں سے چھلنی حالت میں برآمد ہوئیں۔باقی 4 نوجوانوں کے لواحقین نے ان کی زندگیوں کو لاحق خطرات پر شدید خدشات ظاہر کیے، جو بعد میں درست ثابت ہو ئے اور چند دنوں بعد ان چاروں کی مسخ شدہ لاشیں بھی علاقے میں پھینکی گئیں۔
سمی دین بلوچ نے کہا کہ 5 اپریل کو مشکے سے مزید3 جبری لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں، جنہیں جعلی مقابلے میں قتل کر کے لاشیں پھینک دی گئی تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی روز بارکھان سے 3 نوجوانوں حق نواز بزدار، شیرو بزدار اور گل زمان بزدار کی لاشیں برآمد ہوئیں اور انہیں مختلف اوقات میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
بی وائی سی رہنما کا کہنا تھا کہ 6 اپریل کو بلیدہ کے علاقے گردانک میں فورسز نے صبح سویرے دو نوجوانوں محراب ولد رحمدل اور خان محمد ولد ہیبتان کو ان کے گھروں سے حراست میں لیا اور چند گھنٹوں کے اندر ہی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ دونوں نوجوان آپس میں کزن تھے۔
انہوں نے کہا کہ اسی تسلسل میں، خضدار کے علاقے باغبانہ میں فورسز نے 3 افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا۔ ان میں سے ایک کی شناخت 28 سالہ عبدالمالک ولد محمد یوسف کے طور پر ہوئی، جنہیں 11 اکتوبر 2024 کو تربت سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔
سمی دین کا مزید کہنا تھا کہ 7 اپریل کو، نادر بلوچ ولد شیر محمد، جنہیں پہلے ہی فورسز کی حراست میں رکھا گیا تھا، ان کی لاش تابوت میں بند کرکے اہلِ خانہ کے حوالے کی گئی۔
اور 8 اپریل کو پنجگور میں پیش آنے والے ایک واقعے میں فورسز کی فائرنگ سے بہادر شفیع نامی شخص جاں بحق، جبکہ سہیل، شاید اور فرحان نامی تین نوجوان زخمی ہو گئے۔
بی وائی سی رہنما نے کہا کہ ایک طرف بلوچستان کو ایک اجتماعی قتل گاہ میں تبدیل کر دیا گیا ہے جہاں روزانہ بنیادوں پر لاشیں برآمد ہو رہی ہیں، وہیں دوسری طرف ان سیاسی نمائندوں، کارکنوں اور آواز بلند کرنے والوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو ریاستی جبر اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، گل زادی سمیت متعدد سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں اسی ریاستی خاموشی کو قائم رکھنے کی کوششیں ہیں۔
انہوں نے آخرط میں کہا کہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی جبری گمشدگیاں اور ماورائے عدالت قتل محض انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں، بلکہ یہ پورے معاشرے پر گہرے زخم چھوڑ رہے ہیں، زخم جو صرف انصاف سے بھر سکتے ہیں، ظلم سے نہیں۔