مستونگ : مارچ روکنے کیخلاف بلوچستان بھر میں شاہراہیں بلاک،جھڑپیں، درجنوں کارکنان گرفتار

ایڈمن
ایڈمن
8 Min Read

ڈاکٹر ماہ رنگ و دیگر رہنمائوں کی رہائی کے لئے مستونگ میں کوہ چلتن کے دامن میں لک پاس کے مقام پر دھرنا ہنوز جاری ہے۔

دھرناشرکا نے آج بروزاتوار کوکوئٹہ کی جانب مارچ کرنا تھا لیکن حکومت کی جانب سے فورسزکی بھاری نفری کی تعیناتی اور دھرنے کو چاروں اطراف گھیرے میں لینے سمیت سڑکوں کو کاٹنے اور رکاوٹیں کھڑی کرنے کی وجہ سے شرکامارچ نہ کرسکے ۔

دھرنے کی شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے یہ اعلان کیا کہ پارٹی کے کارکن جہاں جہاں بھی ہیں وہاں شاہراہوں کو بند کریں۔

اس اعلان کے بعد پارٹی کے کارکنوں نے کوئٹہ میں سریاب کے مختلف علاقوں میں شاہراہوں کو بند کیا جن کے خلاف پولیس نے کارروائی کی۔

شام تک مختلف علاقوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہیں۔

مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کرنے کے علاوہ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔ گرفتار ہونے والے متعدد مطاہرین کو پولیس اہلکار تشدد کا نشانہ بھی بناتے رہے۔

سونا خان کے علاقے میں ان جھڑپوں کے دوران دو درجن سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔

اتوار کو بلوچستان کے مزید علاقوں میں شاہراہوں کو بطور احتجاج بند کیا گیا ہے۔

کوئٹہ شہر میں سریاب کے علاقے میں شاہراہوں کو بند کرنے پر پولیس اور مظاہرین کی درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ کے علاوہ گرفتاریاں بھی کی گئیں۔

دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب اجازت نہ دینے کے خلاف بلوچستان میں پیر کو بی این پی کی جانب سے شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی گئی ہے۔

اس سلسلے میں کوئٹہ پریس کلب میں پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے سینیئر نائب صدر ساجد ترین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ خواتین کی گرفتاری کے خلاف بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام جو دھرنا دیا جارہا ہے وہ پرامن ہے لیکن حکومت اس کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب آنے کی اجازت نہیں دے رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر لوگوں کو اپنے جائز مطالبات کو منوانے کے لیے پرامن احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی تو پھر لوگوں کے پاس احتجاج کا باقی کونسا راستہ رہ جائے گا۔جو اقدامات کیئے جارہے ہیں اس سے یہ لگتا ہے حکومت معاملات کا پر امن حل نہیں چاہتی ہے۔

دھرنے کے شرکا کی جانب سے مطالبات سے پیچھے نہ ہٹنے اور حکومت کی جانب سے مطالبات کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے جو شاہراہیں بند ہیں اس سے بلوچستان میں عام لوگوں کو شدید پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے فوٹو گرافر بنارس خان ان کیمرا مینز میں شامل تھے جنھوں نے صبح دھرنے کے مقام تک جانے کی کوشش کی لیکن پولیس کے اہلکاروں نے ان کو لکپاس ٹنل سے آگے جانے نہیں دیا۔

بنارس خان نے بتایا کہ پہلے کے مقابلے ٹنل کو آج کنٹینروں سے مکمل بھر دیا گیا تھا جبکہ گردونواح میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بھاری نفری تعینات تھی۔

کوئٹہ کراچی شاہراہ پر کوئٹہ اور مستونگ کے اضلاع کی سرحد پر ایک بڑا گڑھا کھودنے کے علاوہ لک پاس کی ٹنل کی دوسری جانب بھی گڑھا کھودا گیا ہے جبکہ لکپاس اور دھرنے کے مقام سے کوئٹہ شہر تک شاہراہ پر گاڑیوں کی آمد و رفت کو روکنے کے لیے کنٹینرز بھی کھڑے کر دیے گئے ہیں۔

ان رکاوٹوں کی وجہ سے آج دن بھر کوئٹہ کراچی شاہراہ ویران دکھائی دیتا رہا اور گاڑیوں کی بندش کی وجہ سے قرب و جوار کے لوگوں کو آمدورفت میں پریشانی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

شاہراہ پر پیدل چلنے والے اور موٹر سائیکلوں پر سفر کرنے والے لوگوں کا کہنا تھا کہ کوئٹہ اور لکپاس کے درمیان مختلف کلیوں سے جو متبادل راستے ہیں ان پر بھی گڑھے کھودے گئے ہیں تاکہ دھرنے کے شرکا وہاں سے کوئٹہ شہر کی جانب نہیں آسکیں۔

اسی طرح کوئٹہ اور مستونگ کے درمیان دشت کے علاقے میں بھی گاڑیوں کی آمدورفت کو روکنے کے لیے رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔

جہاں ان رکاوٹوں کی وجہ سے دو اہم شاہراہوں کوئٹہ کراچی ہائی وے اور کوئٹہ کراچی تفتان ہائی وے پر لوگوں کو سفر میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں 9 روز سے پھنسی ہوئی مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیور بھی ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔

دوسری جانب سرکاری حکام نے بلوچستان نیشنل پارٹی پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کی پارٹی کی قیادت ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کررہی ہے۔

گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے لچک کا مظاہرہ کیا گیا لیکن بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے لچک کا مظاہرہ نہیں کیا جارہا ہے۔

سردار اختر مینگل نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ جب تک کوئٹہ کا راستہ نہیں کھلتا دھرنا بدستور جاری رہے گا۔

انہوں نے اپیل کی ہے کہ بلوچ عوام بلوچستان بھر کی شاہراہوں کو مکمل بند کریں۔

انہوں نے کہا ہے کہ اپنی جدوجہد سے کسی بھی صورت پیچے نہیں ہٹیں گے۔ اگر دھرنے پر بیٹھے کسی بھی شخص کو نقصان پہنچا تو براہ راست فوج اور حکومت بلوچستان پر زمہ داری عائد ہوگی۔

پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ،بلوچ یکجہتی کمیٹی ،نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ اور انجمن تاجران نے بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے کل شٹر ڈائون ہڑتال کی کال کی حمایت کا اعلان کیا ہے.

شاہراہوں کی بندش کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ سروس ایک بار پھر معطل ہے، جو کہ گزشتہ روز چند گھنٹوں کے لیے بحال کی گئی تھی۔ آج (اتوار) کو بھی کوئٹہ، مستونگ، قلات، سوراب، اور خضدار سمیت متعدد اضلاع میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں، جس سے شہریوں میں بےچینی اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق، انٹرنیٹ سروس کی معطلی سکیورٹی خدشات کے باعث کی گئی ہے، تاہم متعلقہ حکام کی جانب سے تاحال اس سلسلے میں کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا۔ یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جب عوام، طلباء، کاروباری افراد اور فری لانس کام کرنے والے انٹرنیٹ پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔

ایک شہری کا کہنا تھا: “ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ کب انٹرنیٹ بحال ہو گا اور کب بند۔ یہ غیر یقینی صورتحال ہماری زندگیوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔”

شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت واضح پالیسی اپنائے اور انٹرنیٹ سروس کی معطلی سے متعلق شفاف اور بروقت معلومات فراہم کرے تاکہ عوام کو کم از کم اپنی روزمرہ سرگرمیوں میں کسی حد تک سہولت میسر آ سکے۔

Share This Article