بلوچستان کے علاقے مستونگ میں ڈاکٹر ماہ رنگ دیگر رہنمائوں کی رہائی کیلئے جاری دھرنا کو فورسز کی جانب سے چاروں اطراف سے گھیرنے اور کوئٹہ کی جانب مارچ کوروکنے کے بعدسردار اختر مینگل نے دھرنا جاری رکھنے اور اب ہم پورے بلوچستان کو مزاحمت کا مرکز بنا نے کا اعلان کیا ہے۔
جبکہ کوئٹہ سونا خان چوک پر سکیورٹی فورسز کی جانب سے پُرامن کارکنوں پر شیلنگ کی گئی ہے۔
انٹر نیٹ سروس مکمل معطل ہے جبکہ مارچ روکنے کے ردعمل پر بی این پی کی کال پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شٹرڈائون ہڑتال اور عوام نے سڑکیں بھی بلاک کردی ہیں۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے میڈیا سیل بی این پی کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’لکپاس دھرنے سے سردار اختر مینگل نے خطاب میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ریاست نے ہمیں کچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر ہم سر جھکانے والے نہیں۔ یہ دھرنا ہر صورت جاری رہے گا اور اب ہم پورے بلوچستان کو مزاحمت کا مرکز بنائیں گے۔‘
واضح رہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے لانگ مارچ کے حوالے سے سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ ’بلوچستان میں دفعہ 144 نافذ ہے اس لیے دھرنے کے شرکا کو کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘
بلوچستان حکومت حکومت کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کوئٹہ کی جانب مارچ کیا تو انھیں حراست میں لے لیا جائے گا۔
بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے ایکس پر بی این پی کے لانگ مارچ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سردار اختر مینگل نے اگر کوئٹہ کی جانب مارچ کیا تو انھیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے صبح 6 بجے اختر مینگل کو ان کی گرفتاری کے ایم پی او آرڈر سے آگاہ کر دیا تھا۔ تاہم سربراہ بی این پی اختر مینگل نے گرفتاری دینے سے انکار کر دیا۔‘
شاہد رند کا اپنے بیان میں مزید کہنا تھا کہ ’بی این پی کی جانب سے قومی شاہراہوں کی بندش کی کال دینا شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ’تمام اضلاع کی انتظامیہ کو ہدایات ہیں کہ قومی شاہراہیں بند نہیں ہوں گی۔‘
کٹھ پتلی بلوچستان حکومت کی جانب سے بلوچستان میں دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا ہے۔