بلوچستان کی غلامی انگریزوں کی سازش اور حملے کے نتیجے میں ممکن ہوئی۔ جب ریاستی طاقت بکھر گئی تو 27 مارچ 1948 کو پاکستان نے انگریزوں کی انتظامی تقسیم کو بنیاد بنا کر بلوچستان کی آزادی سے انکار کیا اور حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نے بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے زیر اہتمام شہید انور ایڈوکیٹ (کیچ-گوادر) اور شہید راشد (مشکے-آواران) ھنکین کی جانب سے بلوچستان کے یومِ قبضہ کے موقع پر منعقدہ پروگرامز سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ان پروگرامز سے بی این ایم کے سینئر وائس چیئرمین ڈاکٹر جلال بلوچ، جونیئر وائس چیئرمین بابل لطیف، مرکزی کمیٹی کے رکن چیف اسلم، سابق مرکزی کمیٹی کے رکن یوسف بلوچ، مشکے-آواران ھنکین کے صدر استاد مھران بلوچ، کیچ-گوادر ھنکین کے صدر بابا جی آر، کیچ-گوادر ھنکین کے جنرل سیکریٹری جیھند بلوچ، مشکے-آواران ھنکین کے نائب صدر تلار ناز، سرباز وفا اور دیگر نے خطاب کیا۔
مقررین نے کہا کہ قابض ہمیشہ سب سے پہلا وار تاریخ اور ثقافت پر کرتا ہے۔ وہ تاریخ کو اس حد تک مسخ کرتا ہے کہ قوم اپنی شناخت اور اہمیت سے نابلد ہوجاتی ہے۔ جب کوئی قوم اپنی تاریخ اور روایات کو فراموش کر بیٹھتی ہے تو اس کا ارتقائی عمل رک جاتا ہے۔ قابض ریاست نے سب سے پہلے کلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا۔ اس کا مقابلہ کرنے کے بجائے کئی رہنما، جیسے غوث بخش بزنجو، محمد حسین عنقا وغیرہ، پارٹی چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔ جب سیاسی نظام کمزور ہوتا ہے تو سماج بھی کمزور ہوجاتا ہے، اور اسی کمزوری کے دوران بلوچ مزاحمتی تحریک بھی ماند پڑ گئی۔
مقررین نے کہا کہ غلامی کا ہر دن سیاہ ہوتا ہے، لیکن جس دن بلوچستان پر قبضہ ہوا، وہ ایک علامتی حیثیت رکھتا ہے۔ تب سے بلوچ قوم مسلسل مظالم کا شکار ہے، اس کی قیادت نشانے پر ہے، اور قابض دشمن بلوچ قوم کی شناخت اور ہستی کو مٹانے کے درپے ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ ہمیں یہ احساس دلایا جائے کہ ہم اس کے مقابلے میں نالائق، کمزور اور نااہل ہیں، تاکہ وہ اپنی حکمرانی کو جائز ثابت کرسکے۔ ہمارے قومی ہیروز کو دہشت گرد قراردینا اور ہمارے بچوں کو علم و آگاہی سے محروم رکھنا اسی پالیسی کا حصہ ہے۔
انھوں نے خبردار کیا کہ پاکستان بلوچستان میں بنگلہ دیش سے بھی بدتر حالات پیدا کرے گا، لیکن ہمیں اس کی دہشت کے آگے سر نہیں جھکانا۔ ہمیں مقابلے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور ہر فرد کو اپنی انفرادی و اجتماعی حیثیت میں جنگِ آزادی میں حصہ ڈالنا ہوگا۔ اگر ہم خوف اور احساسِ شکست سے بالاتر ہوکر اپنے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے لڑیں گے تو فتح ہماری ہوگی، کیونکہ قابض کا ہماری سرزمین پر کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں۔ اسے آج نہیں تو کل یہ حقیقت تسلیم کرکے یہاں سے نکلنا ہی ہوگا۔ تب تک ہمیں صبر و استقامت کے ساتھ مزاحمت کرنی ہوگی۔
مقررین نے کہا کہ بلوچستان پر قبضے کی بنیاد 1948 میں نہیں بلکہ اس وقت رکھی گئی جب انگریزوں نے اس سرزمین پر قدم رکھا اور ہماری زمین کو تقسیم کرکے اپنے طفیلی حکمرانوں کے ذریعے اختیار و اقتدار پر قبضہ جمایا۔