بلوچستان کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ کبھی نہیں کہا کہ بلوچستان میں سیکورٹی کی صورتحال تشویشنا ک نہیں ہے، میں خود کہہ رہا ہوں کہ سیکورٹی کی حالت تشویشناک ہے لیکن مولانا فضل الرحمن اور عمر ایوب کہہ رہے ہیں کچھ اضلاع آزادی کا اعلان کرنے والے ہیں ۔
یہ بات انہوں نے اتوار کو کوئٹہ میں پی ڈی ایم اے کے دفتر میں رمضان المبارک میں راشن تقسیم منصوبے کے افتتاح کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی ۔
ایک سوال کے جواب میں سرفراز بگٹی نے کہا کہ احتجاج کی آڑ میں سڑکیں بند کرنا کسی صورت قابل قبول نہیں ہے مسنگ پرسنز کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ ہے کون اس بات کا تعین کریگا کہ جو شخص لاپتہ ہے اسے حکومت، کسی حساس ادارے نے لاپتہ کیا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ حکومت جب بات چیت کرتی ہے تو وہ لوگوں کو اسی بات کی یقین دہانی کرواتی ہے کہ لوگوں کو بازیاب کروایا جائیگا ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ اس بات کا بھی امکان ہے وہ جتھے جو بندوق کی زور پر کچھ دیر کے لئے سڑکیں بند کرتے ہیں انہیں ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو آکر سڑکیں بند کریں ہوسکتا ہے وہ خودہی لوگوں کو لاپتہ کر رہے ہوں تاکہ حکومت پر دبائو آئے اور بعد میں ان لوگوں کو چھوڑا بھی جارہا ہو یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے جو غور طلب ہے حکومت کو سول سوسائٹی سمیت تمام طبقات کی مدد کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا حکومت سے کوئی شکوہ ہے وہ احتجاج کریں مگر قومی شاہراہوں کو بند کر کے مریضوں ،بزرگوں کو نہ روکیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سڑکیں کھلوائے ہم اپنی ذمہ داری سے مبرا نہیں ہونگے صبر کا پیمانہ ہے وہ لبریز ہوتا ہے حکومت اپنی رٹ قائم کرنا اور قومی شاہراہیں کھلوانا جانتی ہے ماضی میں گوادر میں بھی سڑک کھلوائی گئی مگر حکومت صبر سے کام لے رہی ہے ۔
ایک سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ مسنگ پرسنز کے مسئلے کو پروپگنڈا کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے جو حکومت کے لئے ایک چیلنج ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے وفاق سے بار ہا کیا ہے ایک ایکٹ میںترمیم کر کے سینٹر قائم کرنے ہیں جن میں حکومت اگر کسی کو لاپتہ کرتی ہے انہیں وہاں رکھے اور اہلخانہ کو بھی وہاں جانے کی اجازت دی جائے یہ ترمیم قومی اسمبلی سے منظور ہوچکی ہے سینیٹ سے بھی جلد یہ قانون منظو ر ہوجائے تو اس معاملے میں کافی فرق پڑیگا ۔
انہوں نے کہا کہ عسکریت پسندی کے واقعات میں اضافہ نظر آرہا ہے،عسکریت پسند سڑکوں پر بھی آتے ہیں جسکی مختلف وجوہات ہیںاس میں ایک وجہ عمر ایوب کی جماعت کی حکومت میں ٹی ٹی پی کی صورت میں عسکریت پسند وں کورعایت دینے کی پالیسی بھی ہے ،کئی کمانڈر ہیں جنہیں عمران خان کی حکومت میں جیلوں سے نکالا گیا جنہوں نے دوبارہ کیمپ قائم کئے ، امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد اسلحہ اور جنگی سامان بلیک میں فروخت کیا گیا جو دہشتگردوں نے حاصل کیا ہے جس سے وہ دو ،دو کلومیٹر تک تھرمل کے ذریعے حملے کرتے ہیں ۔
وزیراعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں پہلی بار عسکریت پسندی میں اضافہ نہیں ہوا ہے ایسی صورتحال 2009اور 2010میں بھی ہوئی تھی وقت کے ساتھ ساتھ حکومت اسمارٹ کانیٹک حکمت عملی کے ذریعے صورتحال پر قابو کریگی ۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں 4ہزار کلومیٹر قومی شاہراہیں ہیں جنا ریاست نے تحفظ اور عسکریت پسندوں سے صرف ایک انچ پر آکر حملہ کرنا ہے ہماری ایک انچ زمین بھی کوئی 3گھنٹے تک قابونہیں کرسکتا دہشتگرد کیوں مغرب کے وقت آتے ہیں یہ صبح کے وقت آئیں اور پورا دن قابو کر کے دیکھائیں تو پتہ لگ جائیگا ۔
انہوں نے کہا کہ نوابزادہ خالد مگسی کا بیان ٹھیک ہے کہ بلوچستان کے حالات ٹھیک نہیں ہیں ہمیں اس پر غور و فکر کرنا چاہیے وفاقی حکومت کو لیویز اور پولیس فورس کی استعداد بڑھانے کے لئے بجٹ دینا چاہیے حکومت بی ایریا کو اے ایریا میں تبدیل کرنے جارہی ہے ہم بہت جلد عسکریت پسند ی پر قابو پا لیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ شاہ زین مری اگر بلوچستان میں ہیں اور سندھ حکومت ان کی گرفتاری میں معاونت کا کہے گی تو ہم مدد کریں گے بلوچستان بہت بڑا ہے اگر کوئی یہاں ہے تو بتایا جائے کہاں ہے ۔
واضع رہے کہ سرفراز بگٹی جن افراد کو جتھے کا نام دے رہی ہے دراصل یہ پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار افراد کے لواحقین ہیں جو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شاہراہیں بندکرکے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
آج حب چوکی میں بھوانی کے مقام پر جاری دھرنے پر پولیس و خفیہ اداروں نے کریک ڈ ائون کرکے کئی خواتین کو گرفتار کر کے جبری لاپتہ کیا ہے ۔
کریک ڈائون دوران فائرنگ و تشدد سے کئی افراد زخمی ہوگئے جن میں خواتین وبچے بھی شامل ہیں جبکہ تشددو لاٹھی چارج کے باوجود دھرنا پھر سے جاری ہے ، شاہراہیں بلاک ہیں اور گاڑیاں رکی ہوئی ہیں۔