اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے سنیچر کی ڈیڈ لائن دینے اور بصورتِ دیگر معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی کے جواب میں حماس کا کہنا ہے کہ وہ ’جنگ بندی کے معاہدے پر قائم ہے‘۔
ایک بیان میں حماس نے ’تعمیر نو کے بہانے‘ غزہ کی پٹی سے شہریوں کی نقل مکانی سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات کو ایک بار پھر مسترد کیا ہے۔
حماس نے ٹرمپ کے بیانات کو ’نسل پرستانہ‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ غزہ سے فلسطینیوں کو ’نکالنے‘ کا منصوبہ کامیاب نہیں ہو گا۔
’حماس تحریک اس وقت تک جنگ بندی کے معاہدے پر قائم ہے جب تک کہ اسرائیل اس کی پاسداری کرتا رہے گا۔‘
گروپ کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ دیگر ممالک کی ثالثی میں بین الاقوامی برادری کے سامنے ہوا۔
حماس کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل اپنے وعدوں پر قائم رہنے میں ناکام رہا ہے اور معاہدے پر عمل درآمد اور یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیر کی تمام تر ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔‘
غزہ میں جنگ بندی خطرے میں پڑنے کے بعد حماس کے ایک سینیئر سیاستدان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اس کا ذمہ دار ہے۔ جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
ڈاکٹر باسم نعیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حماس معاہدے کے لیے پرعزم ہے اور ’اگر صورت حال بہتر ہو جاتی ہے تو وہ اگلے ہفتے قیدیوں کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘
حماس نے پیر کے روز اسرائیل پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’طے شدہ تاریخ کے مطابق اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ملتوی کر رہی ہے۔‘
نعیم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’معاہدے کی یہ مسلسل خلاف ورزیاں معاہدے کو نقصان پہنچائیں گی اور اسے سبوتاژ کر دیں گی جس کے نتیجے میں غزہ کے بے گھر افراد کی واپسی میں 48 سے 72 گھنٹے تک تاخیر ہو سکتی ہے۔
انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب بھی غزہ میں اہم امداد، جیسے خوراک اور ادویات دستیاب نہیں ہیں، نعیم نے اسے معاہدے میں تاخیر کی ایک اور وجہ قرار دیا ہے۔
لیکن نعیم کے مطابق سب سے اہم نیتن یاہو کی دھمکیاں ہیں جنھیں ٹرمپ کی حمایت حاصل ہے اور ایسے بیانات کہ وہ غزہ کے 20 لاکھ لوگوں کو بے گھر کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔