بھارت نے چین کی جانب سے ہمالیہ کی متنازع سرحد پر عسکری تنصیبات میں اضافے کے جواب میں اپنی فوجیوں کی تعداد بھی بڑھا دی۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ چین نے ہمالیہ کی متنازع سرحد پر دوطرفہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بڑی تعداد میں فوج اور عسکری تنصیبات کا اضافہ کیا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق نئی دہلی میں بریفنگ میں وزارت خارجہ کے ترجمان انوراگ سریواستو نے کہا کہ ‘اس مسئلے کا اصل سبب یہ ہے کہ چین کی جانب سے لائن ا?ف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے ساتھ وسیع پیمانے پر فوجی دستوں کی تعیناتی اور اسلحہ ذخیرہ کر رہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ ہمارے مختلف باہمی معاہدوں کی دفعات کے منافی ہے’۔
ترجمان وزارت خارجہ نے 1993 کے معاہدے کا حوالہ دے کر کہا کہ معاہدے میں دونوں فریقین محدود حد تک تعیناتیاں برقرار کرسکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین کی جانب سے نئی پیش رفت کے نتیجے میں ‘نئی دہلی کو جوابی کارروائی’ کرنی پڑی۔
واضح رہے کہ نئی دہلی کی جانب سے پہلی مرتبہ اعتراف کیا گیا کہ ہمالیہ کی سرحدی حدود میں دونوں ممالک کی افواج میں جھڑپ ہوئی۔
سریواستو نے کہا کہ پچھلے مہینے چینی فوج کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے پیش نظر بھارت نے بھی ایل اے سی کے ساتھ بڑی تعداد میں فوج تعینات کی تھی۔
گزشتہ روز سیٹلائٹ تصاویر جاری ہوئی تھیں جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ چین نے مغربی ہمالیہ میں بھارت کے ساتھ سرحدی تصادم کے مقام کے قریب نئے ڈھانچے کا اضافہ کردیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت اور چین کے فوجیوں کے مابین 15 جون کو ہونے والے تصادم میں 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
امریکا کی خلائی ٹیکنالوجی کمپنی میکسار ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں دکھایا گیا تھا کہ وادی گلوان کے ساتھ چینی تنصیبات نظر آرہی ہیں۔
آسٹریلیا کے اسٹریٹجک پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مصنوعی سیارہ ڈیٹا کے ماہر نیتھن روسر نے کہا تھا کہ اس تعمیر سے پتہ چلتا ہے کہ کشیدگی میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے۔
یہ وادی گلوان اور دریائے شیوک کے سنگم پر شروع ہوتی ہے اور دونوں فریقین جس لائن آف ایکچوئل کنٹرول کو باضابطہ تسلیم کرتے ہیں، وادی میں ان دریاو¿ں کے سنگم کے مشرق میں واقع ہے۔
چین اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ میں بھارت کے 20 فوجی مارے گئے تھے اور یہ 45 سال کے دوران دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان سب سے خونریز جھڑپ ہے۔
ماہرین کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست جنگ کے امکانات انتہائی کم ہیں البتہ کشیدگی میں کمی میں کچھ وقت لگ سکتا ہے۔
چین دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا 90 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ بھارت میں واقع ہے جس کے جواب میں بھارت کا دعویٰ ہے کہ اس کا 38 ہزار اسکوائر کلومیٹر کا علاقہ چین کی حدود میں اکسائی چن کے پہاڑی علاقے میں واقع ہے۔