امریکہ کےصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ غزہ سے متعلق انہوں نے جو منصوبہ بنایا ہے اس کے تحت فلسطینی واپس غزہ نہیں جا سکیں گے بلکہ ان کے لیے دیگر جگہوں پر نئی اور خوبصورت آبادیاں تعمیر کی جائیں گی۔
فاکس نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو میں، جس کا کچھ حصہ اس نیٹ ورک نے جاری کیا ہے، صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں کی آبادکاری کے لیے مصر اور اردن کے ساتھ کوئی ڈیل کی جا سکتی ہے۔ امریکہ ان ملکوں کو اس کے بدلے سالانہ کئی ارب ڈالر دے گا۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یرغمالوں اور قیدیوں کے مرحلہ وار تبادلے کے بعد اسرائیل اور حماس دونوں پر جنگ بندی میں مزید پیش رفت کرنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔
پیر کو امریکی صدر نے فاکس نیوز چینل کے بریٹ بائر کےسا تھ اپنے انٹرویو میں اعادہ کیا کہ ہم ان کے لیے پانچ چھ یا دو خوبصورت اور محفوظ کمیونیٹیز بنائیں گے، اس جگہ سے کچھ دور جہاں وہ آج موجود ہیں،
انہوں نے ایک بار پھر اس پر زور دیا کہ غزہ اس وقت رہنے لائق نہیں ہے، اگر وہ آج واپس غزہ آتے ہیں تو اسے تعمیر کرنے میں برسوں لگیں گے۔
انہوں نے کہا، "میں مصر اور اردن کے ساتھ ڈیل کر سکتا ہوں، ان کو ہم سالانہ اربوں ڈالر دیں گے۔”
اس سے قبل ٹرمپ نے اتوار کو مقبول اسپورٹس ایونٹ سپربال کے لیے جاتے ہوئے ایئرفورس ون طیارے میں رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے یرغمالوں کی واپسی کے مناظر دیکھے ہیں۔
حماس کے رہا کیے جانے والے اسرائیلی یرغمالوں کے بارے میں صدر کا کہنا تھا "وہ بالکل ہولوکاسٹ سروائیور لگ رہے تھے۔ ان کی حالت بہت ہولناک تھی۔ وہ بہت لاغر نظر آرہے تھے۔۔۔مجھے نہیں معلوم کہ ہم کب تک یہ برداشت کرسکیں گے۔”
انہوں نے ایک بار پھر یہ عزم دہرایا تھا کہ امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھال لے گا اور فلسطینیوں کو کہیں اور منتقل کردیا جائے گا۔
ٹرمپ نے کہا کہ وہ غزہ کو خریدنے اور اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ان کے بقول جہاں تک اس کی تعمیرِ نو کا معاملہ ہے تو اسے مختلف حصوں میں تعمیر کرنے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو بھی دیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا ہم غزہ کا کنٹرول سنبھالنے اور یہ یقینی بنانے کے لیے پُرعزم ہیں کہ حماس دوبارہ یہاں منتقل نہ ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ "یہاں ایسا کچھ نہیں بچا جس کے لیے واپس آیا جائے۔ یہ ایک ملبے کا ڈھیر ہے۔ باقی عمارتیں گرا دی جائیں گی۔”
اس سے قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اسرائیل جنگ کے اختتام پر غزہ کی پٹی کو امریکہ کے حوالے کردے گا۔
گزشتہ جمعرات کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں صدر ٹرمپ نے غزہ کی تعمیرِ نو سے متعلق کہاتھا کہ اس کے لیے کسی امریکی فوجی کی ضرورت نہیں پڑے گی اور خطے میں استحکام کا دور دورہ ہو گا۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ امریکہ غزہ کا کنٹرول سنبھال کر اس کی تعمیر نو کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ بہت ہی خوب صورت علاقہ ہے جسے تعمیر کرنا اور وہاں ہزاروں ملازمتیں پیدا کرنا بہت ہی شان دار ہو گا۔
صدر ٹرمپ کے ان بیانات پر سعودی عرب سمیت خطے کے مختلف ممالک نے ردِ عمل ظاہر کیا تھا اور غزہ سے فلسطینیوں کو متنقل کرنے کے کسی منصوبے کی مخالفت کی تھی۔
اتوار کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے وسط میں بنائے گئے نیٹزرم کوریڈور سے فوج کا انخلا شروع کرنے سے جنگ بندی میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔
یہ راہداری غزہ کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی اور اسرائیلی فوج کے انخلا سے جنگ بندی کے بعد شمالی غزہ میں مزید فلسطینیوں کو واپس آنے کا راستہ ملے گا جو جنگ سے پہلے وہاں رہتے تھے۔
اسرائیلی حکام نے تاحال یہ واضح نہیں کیا کہ غزہ سے کتنے فوجی نکالے گئے ہیں۔ اسرائیل کی فوج اس وقت بھی غزہ کے اسرائیل اور مصر کے ساتھ ملنے والے بارڈر پر موجود ہے۔ فوج کے مکمل انخلا سے 42 روزہ جنگ بندی کے اگلے مراحل میں پیش رفت کی توقع ہے۔