اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر کا اپنے ایک حالیہ بیان میں کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے حماس کی جانب سے مزید جن 26 افراد کو رہا کیا جانا ہے ان میں آٹھ اب زندہ نہیں ہیں۔
مینسر نے اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیل کو حماس کی جانب سے ایک فہرست موصول ہوئی ہے پہلے مرحلے میں رہائی پانے والے تمام 33 یرغمالیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں۔
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’حماس کی یہ فہرست اسرائیل کی انٹیلی جنس معلومات سے مطابقت رکھتی ہے۔ لہذا میں یہاں یہ کہ سکتا ہوں کہ ہمارے 25 یرغمالی زندہ ہیں اور آٹھ حماس کے ہاتھوں مارے گئے ہیں۔‘
مینسر نے اپنے بیان میں 33 یرغمالیوں کا ذکر کیا ہے تاہم ان میں سے سات کو پہلے ہی زندہ رہا کیا جا چکا ہے۔
تاہم ایک اسرائیلی فوجی ڈاکٹر نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ غزہ سے حماس کی جانب سے اب تک رہا کیے گئے سات یرغمالیوں میں سے کچھ کو جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں مسلسل آٹھ ماہ تک سرنگوں میں رکھا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کی میڈیکل کور کے ڈپٹی چیف کرنل ڈاکٹر اوی بانوو کا کہنا ہے کہ ’رہا کیے گئے کچھ یرغمالیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کئی ماہ زیر زمین سرنگوں میں گزارے ہیں۔‘
یرغمالیوں کا کہنا ہے کہ ’رہائی سے پہلے کے دنوں میں ان کے تاھ حماس کے برتاؤ میں بہتری آئی۔ انھیں نہانے، کپڑے تبدیل کرنے اور بہتر کھانا فراہم کیا جانے لگا۔‘
مگر انھوں یہ نہیں بتایا کہ یرغمالیوں پر تشدد یا بدسلوکی کے آثار تھے یا نہیں۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر کو پکڑے جانے کے بعد سے کچھ یرغمالیوں کے زخموں پر توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کا مناسب علاج ہوا۔‘
تاہم دوسری جانب 7 اکتوبر کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے بعد سے شروع ہونے والی اسرائیلی افواج کی کارروائی کے نتیجے میں غزہ میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد کے بارے میں تازہ ترین اعدادوشمار جاری کیے گئے ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں اب تک 47 ہزار 317 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کم از کم ایک لاکھ 11 ہزار 494 افراد زخمی ہوئے ہیں۔