ریاست پاکستان کی جانب سے آزادی اظہار رائے کو دبانے یا مکمل خاموش کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں سے سیاسی و انسانی حقوق کارکنان کیخلاف بے بنیاد مقدمات کے اندراج میں تیزی آگئی ہے۔
بی وائی سی کارکنان کیخلاف گذشتہ ایک ہفتے کے دوران مختلف علاقوں میں 25 جنوری کو دالبندین میں منعقدہ عوامی اجتما ع کیلئے پرامن آگہی مہم کے سلسلے میں متعددبے بنیاد ایف آئی آر درج کر لی گئی ہیں۔
مستونگ ودیگر علاقوں کے بعدااب نصیر آباد سے بھی ڈاکٹر ماہ رنگ و ساتھیوں کیخلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔
اس سلسلے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ما ہ رنگ بلوچ کا کہنا ہے کہ آج، ایک اور دن اور میرے خلاف ایک اور ایف آئی آر (پہلی اطلاعاتی رپورٹ) درج کی گئی ہے۔ یہ تازہ ترین معاملہ بلوچ نسل کشی کی یاد کے دن کے موقع پر بیداری پیدا کرنے کے لیے نصیر آباد، بلوچستان میں ایک پرامن عوامی اجتماع سے پیدا ہوا ہے۔ پرامن اسمبلی کے ہمارے جمہوری حق کا احترام کرنے کے بجائے، ریاست پاکستان نے جبر سے جواب دینے کا انتخاب کیا ہے، میرے اور میرے ساتھیوں کے خلاف ہمارے بنیادی حقوق کے استعمال پر مقدمہ درج کیا ہے۔
انہو ں نے کہا کہ یہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں ہے۔ ریاست نے میری آواز کو خاموش کرنے اور بلوچستان میں انسانی حقوق کی وکالت کے لیے میرے غیر متزلزل عزم کو متاثر کرنے کی بظاہر کوشش میں میرے خلاف درجنوں ایف آئی آر درج کرائی ہیں۔ یہ کارروائیاں ریاست کی انسانی حقوق کے محافظوں کو دھمکانے اور اس کی پالیسیوں کے خلاف کسی بھی اختلاف کو دبانے کی جاری کوششوں کو نمایاں کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ امر اہم ہے کہ صرف تین روز قبل بلوچستان کے شہر مستونگ میں اسی طرح کا پرامن اجتماع منعقد کرنے پر میرے خلاف ایک اور ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔ اس طرح کا بار بار نشانہ بنانا ریاستی حمایت یافتہ ہراساں کرنے کا واضح نمونہ ظاہر کرتا ہے جس کا مقصد انصاف اور انسانی حقوق کی تحریکوں کو کچلنا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ نے کہا کہ جبر کے ان ہتھکنڈوں کے باوجود بلوچستان میں انصاف، مساوات اور انسانی حقوق کی جنگ جاری رکھنے کا ہمارا عزم غیر متزلزل ہے۔ یہ چیلنجز صرف ریاستی دشمنی اور جبر کے مقابلے میں ہماری جدوجہد کی اہمیت کی تصدیق کرتے ہیں۔