بھارت میں الیکشن ایک ہی روز کرانے کا بل کابینہ سے منظور، اپوزیشن کی شدید مخالفت

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

بھارت کی مرکزی کابینہ نے ’ون نیشن ون الیکشن‘ کے بل کو منظوری دے دی ہے۔ اب اسے پارلیمان کے رواں اجلاس میں پیش کیا جائے گا اور پھر اسے مزید غور و خوض کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے حوالے کر دیا جائے گا۔ پارلیمانی اجلاس 20 دسمبر تک چلے گا۔

میڈیا رپورٹس میں حکومت کے ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اگر یہ بل پارلیمان سے منظور ہو کر قانون بن گیا تو اس کے تحت پہلا انتخاب 2034 میں ممکن ہو سکے گا۔

سابق صدر رام ناتھ کووند کی سربراہی والی کمیٹی نے 18 ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جائیں۔ بعد ازاں بلدیاتی اداروں کے انتخابات 100 دنوں کے اندر کرائے جائیں۔

کمیٹی نے دو آئینی ترمیمی بل پیش کیے۔ پہلا لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات کو ایک ساتھ کرانا اور دوسرا دہلی، پانڈیچری اور جموں و کشمیر جیسی یونین ٹیریٹریز یعنی مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں میں ایک ساتھ الیکشن کرانا۔

کمیٹی کی سفارشات پر عمل درآمد کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑے گی اور پورے ملک کے لیے ایک ووٹر لسٹ بنانی ہو گی۔ آئینی ماہرین کے مطابق ون نیشن ون الیکشن کی سفارش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے آئین کی کم از کم پانچ دفعات میں ترامیم کرنا ہوں گی۔

بل کے مطابق اگر معلق پارلیمان، عدم اعتماد کی تحریک یا کسی اور وجہ سے حکومت گر جاتی ہے تو لوک سبھا کا نیا الیکشن کرایا جائے گا۔ لیکن اس کی مدت لوک سبھا کی بچی ہوئی مدت کے لیے ہوگا پانچ سال کے لیے نہیں۔

اسی طرح اگر کسی ریاست کی اسمبلی کسی وجہ سے تحلیل ہو جاتی ہے تو نیا الیکشن کرایا جائے گا اور جو نئی اسمبلی بنے گی اس کی مدت لوک سبھا کی باقی بچی مدت تک ہی مانی جائے گی۔

حکمراں جماعت ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ (بی جے پی) 2014 میں مرکز میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے ہی لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ کرائے جانے پر زور دیتی رہی ہے۔ اس نے اسے اپنے انتخابی منشور میں بھی شامل کیا ہے۔

حکومت کے منصوبہ ساز ادارے ’نیتی آیوگ‘ نے 2017 میں اپنی ایک رپورٹ میں اس تجویز کی حمایت کی تھی۔ اس کے اگلے سال اس وقت کے صدر رام ناتھ کووند نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں اس کا ذکر کیا تھا۔ قانون کمیشن نے 2018 میں اس کا جائزہ لینے کی بات کہی تھی۔ وزیرِ اعظم نریندر مودی نے 2019 میں لال قلعے کی فصیل سے اپنے خطاب میں ون نیشن ون الیکشن کی بات کی تھی۔

تجزیہ کاروں کی جانب سے اس پر ملی جلی آرا ظاہر کی جا رہی ہیں۔ جہاں کچھ تجزیہ کار حکومت کے اس قدم کی حمایت کر رہے ہیں تو کچھ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔

حزبِ اختلاف نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے۔

انھوں نے اسے وفاقیت اور جمہوریت کے منافی اور ناقابلِ عمل قرار دیا ہے۔

ان کے مطابق یہ قدم ملک کو درپیش اہم مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ کانگریس کے صدر ملک ارجن کھڑگے کے مطابق یہ بل ناقابلِ عمل ہے۔ اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔

متعدد ریاستوں میں اپوزیشن پارٹیوں کی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔

انھوں نے بھی اسے وفاقی ڈھانچے پر حملہ قرار دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومت اس طرح ملک میں صدارتی نظام لانے کی کوشش کر رہی ہے۔

Share This Article