پاکستان کی سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں زیر التوا مقدمات میں سے 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی تاہم عدالت نے اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی لارجر بینچ نے یہ فیصلہ سنایا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انھیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
خیال رہے کہ گذشتہ برس اکتوبر میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے عام شہریوں کے ٹرائلز سے متعلق آرمی ایکٹ کی شق ٹو ون ڈی کو کالعدم قرار دیتے ہوئے نو اور دس مئی کے واقعات میں گرفتار تمام ملزمان کے مقدمات فوجی عدالتوں سے فوجداری عدالتوں میں بھیجنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کا سات رکنی آئینی بینچ ملٹری کورٹس کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سن رہا ہے۔ فوجی عدالتوں کے فیصلے کے خلاف پنجاب کی صوبائی حکومت اور وفاق کی جانب سے اپیل دائر کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ نو مئی 2023 کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پُرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور فوجی تنصیبات سمیت کئی سرکاری عمارتوں پر حملے کیے گئے تھے۔ نو مئی کے واقعات کے ذمہ داروں کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے سے متعلق پارلیمان نے قرارداد منظور کی تھی جس کے بعد وفاقی حکومت نے ان افراد کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں بھیجنے کی منظوری دی تھی۔
جمعرات کو سویلینز کے مقدمے فوجی عدالتوں میں چلانے کے حوالے سے سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا تھا کہ ’فوج میں نہ ہونے والا فرد فوج کے ڈسپلن کے نیچے کیسے آ سکتا ہے؟‘
اس پر حکومتی وکیل خواجہ حارث کا دوران سماعت کہنا تھا کہ ’مخصوص حالات میں سویلین پر بھی آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ عدالت کے پاس آرمی ایکٹ دفعات کو کالعدم کرنے کا اختیار نہیں۔‘
اس پر جسٹس جمال نے کہا کہ ’اس طرح تو اگر کوئی اکسانے کا سوچے تو آرمی ایکٹ کا اطلاق ہو گا، کیا آرمی ایکٹ نے آئین کے آرٹیکل 8 کا سیکشن 1 غیر مؤثر نہیں کر دیا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ملٹری ٹرائل میں بھی فیئر ٹرائل کا آرٹیکل 10 اے موجود ہوتا ہے۔‘
جسٹس مندوخیل نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں سب سے بڑا عہدہ صدر مملکت کا ہے، اگر صدر ہاؤس پر حملہ ہو تو ملزم کا ٹرائل انسداد دہشتگردی عدالت میں ہو گا مگر آرمی املاک پر حملہ ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹس میں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ یہ فیصلہ قانون سازوں نے قانون سازی سے کیا ہے۔‘
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ ’ملٹری کورٹس کے زیر حراست افراد کی ایف آئی آر کی نقول نہیں دی گئیں، کیا ملٹری کورٹ ٹرائل میں وکیل کی اجازت ہوتی ہے؟ کیا ملٹری کورٹ میں ملزم کو تمام مواد فراہم کیا جاتا ہے؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا ’جی ملٹری کورٹ میں ملزم کو وکیل اور تمام متعلقہ مواد فراہم کیا جاتا ہے۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا ’اگر ایک فوجی اپنے افسر کا قتل کر دے تو کیس کہاں چلے گا؟‘
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ قتل کا کیس عام عدالت میں چلے گا۔