شام میں باغیوں نے دارلحکومت دمشق پر قبضہ کرکے صدربشار الاسد کا تختہ الٹ دیا ہے۔اور اب اقتدار کی منتقلی پر غوروخوض کیا جارہا ہے۔
باغی فوجیوں نے شام کو ’آزاد‘ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ صدر بشار الاسد ملک سے چلے گئے ہیں۔
ٹیلیگرام پر ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کا کہنا ہے کہ ایک تاریک دور کا خاتمہ ہوا اور یہ ایک نئے دور کا آغاز ہے۔
باغیوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ بے گھر ہو گئے تھے یا اسد کے دورِ حکومت میں قید تھے، وہ اب گھر آ سکتے ہیں۔
ایچ ٹی ایس کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’نیا شام‘ ہو گا جہاں ’ہر کوئی امن اور انصاف کے ساتھ رہے گا۔‘
دمشق کے مرکز میں واقع اہم سرکاری اداروں جن میں وزارت دفاع اور شامی مسلح افواج کے ایک تاریخی مقام ’اموی سکوائر‘ میں تقریبات شروع ہونے کی اطلاعات ہیں۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں بلند آواز میں موسیقی کی آوازیں سنی جا سکتی ہیں اور تقریباً درجن کے قریب لوگ ایک ٹینک کے گرد رقص کر رہے ہیں جسے مبینہ طور پر فوج نے چھوڑ دیا تھا۔
مبینہ طور پر شام کی وزارت دفاع کے حکام نے دمشق میں واقع اپنے ہیڈ کوارٹر کی عمارت کو خالی کر دیا ہے۔
باغی گروہ ہیئت تحریر الشام کے رہنما ابو محمد الجولانی کا کہنا ہے کہ اقتدار کی باضابطہ منتقلی تک عوامی ادارے وزیرِ اعظم محمد الجلالی کے ماتحت کام کرتے رہیں گے۔
دمشق میں موجود تمام جنگوؤں سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی جنگجو عوامی اداروں میں داخل نہ ہوں۔ انھوں نے ہوائی فائرنگ پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔
باغیوں کی جانب سے صدر بشارالاسد کی شام سے فرار ہونے کے دعوے کے بعد وزیرِ اعظم محمد الجلالی نے اعلان کیا ہے کہ عوام جس کو بھی چنیں گے وہ اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اتوار کے روز اپنے دفتر میں ہوں گے اور وہ اقتدار کی منتقلی کے کسی بھی طریقہ کار کے لیے تیار ہیں۔
شام کے دو سینیئر فوجی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ہے کہ صدر بشار الاسد طیارے میں سوار ہو کر دمشق سے نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہو گئے ہیں۔
دمشق پر قبضے سے قبل شام میں بشارالاسد مخالف باغیوں نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر دعویٰ کیا تھا کہ ان کی فوجیں دارالحکومت دمشق میں داخل ہو رہی ہیں دوسری جانب باغیوں کے شام کے تیسرے بڑے شہر حمص پر قبضے کی بھی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔
باغیوں کے ایک رہنما نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی فورسز نے ملک کے تیسرے بڑے شہر حمص کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ابو محمد الجولانی نے اسے ایک تاریخی وفتح قرار دیتے ہوئے اپنے حامیوں کو کہا ہے کہ کسی ایسے شخص کو نقصان کو نہ پہنچائیں جو ہتھیار ڈال دے۔
اورشام کی وزارتِ دفاع نے ان رپورٹس کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حمص کی صورتحال ’مستحکم اور محفوظ‘ ہے۔
جبکہ شام کی جنگ پر نظر رکھنے والے ادارے سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا تھا کہ بشارالسد مخالف باغی حمص میں داخل ہو چکے ہیں اور شہر کے کئی علاقوں کا کنٹرول اب ان کے ہاتھ میں ہے۔
باغی کمانڈر حسن عبدالغنی کا کہنا تھا کہ شام کی بدنامِ زمانہ صیدنایا جیل سے تقریباً ساڑھے تین ہزار قیدیوں کو رہا کروایا جا چکا ہے۔
اگر حمص باغیوں کے کنٹرول میں چلا گیا ہے تو اس سے دمشق کا ساحلی علاقے سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔
دمشق کو اپنے کنٹرول میں لینے سے پہلے اسلامی باغی گروہ ہیئت تحریر شام کا کہنا تھا کہ ان کا شامی حکام کے پاس موجود ’کیمیائی ہتھیار‘ استعمال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق باغی گروہ کا کہنا تھا کہ وہ ’کسی بھی صورت میں‘ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال نہیں کریں گے۔
خیال رہے ہیئت تحریر شام ملک میں حکومت مخالف کارروائیوں کی قیادت کر رہا ہے اور یہ گروہ حلب، حماہ اور درعا شہروں پر قبضہ کر چکا تھا۔
یاد رہے کہ ہیئت تحریر شام کو اقوام متحدہ، امریکہ اور ترکی سمیت متعدد مالک نے ایک دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ ماضی میں اس کا نام جبھہ النصرہ تھا اور یہ القاعدہ کی ایک ذیلی تنظیم تھی، تاہم بعد میں اس گروہ نے القاعدہ سے علیحدگی کا اعلان کردیا اور اس کا نام تبدیل کر کے ہیئت تحریر شام رکھ دیا گیا۔
اقوامِ متحدہ کے نمائندہ برائے شام گیئر پیڈرسن نے مطالبہ کیا ہے کہ شامی حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کی منتقلی کے حوالے سے سکیورٹی کونسل کی قرارداد کے تحت ’فوری سیاسی مذاکرات‘ ہونے چاہییں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کی ایران، روس، ترکی، امریکہ، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور یورپی یونین کے نمائندوں سے گفتگو ہوئی ہے اور سب ہی نے ’ان کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھیں امید ہے کہ وہ ’بہت جلد‘ ان مذاکرات کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔