جنوبی شام میں باغی افواج نے درعا کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے 2011 میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف بغاوت شروع ہوئی تھی۔
سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے رپورٹ کیا ہے کہ ’مقامی دھڑے‘ حکومتی فورسز کے ساتھ ’پرتشدد جھڑپوں‘ کے بعد بہت سے فوجی مقامات پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق باغیوں کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ فوج کے انخلا اور فوجی حکام کو تقریباً 100 کلومیٹر دور دارالحکومت دمشق تک محفوظ راستہ فراہم کرنے سے متعلق ایک معاہدے پر اتفاق کر چکے ہیں۔
یہ اطلاعات شمالی شام میں انتہا پسند اسلامی گروہ ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں حمص شہر کے مضافات تک پہنچنے کا دعویٰ کرنے کے بعد سامنے آئی ہیں تاہم بی بی سی آزادانہ طور پر ان رپورٹس کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
یاد رہے کہ شام میں باغیوں نے ایک ہی ہفتے مین دو بڑے شہروں پر قبضہ کرلیا ہے اور انتہا پسند اسلامی گروہ ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں ان جنگجوؤں کا اگلا نشانہ اب حمص ہے۔
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جمعے کے روز کہا کہ جنوب میں باغی اب درعا کے 90 فیصد سے زیادہ علاقے پر قابض ہیں تاہم الصنمين کا علاقہ اب بھی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔
سٹریٹجک اور علامتی اہمیت کا حامل درعا شہر صوبے کا دارالحکومت ہے جو اردن کی سرحد پر اہم گزرگاہوں کے قریب ہے اور یہیں سے 2011 میں جمہوریت نواز مظاہرے شروع ہوئے تھے۔
اردن کی وزارت داخلہ نے کہا کہ اس نے شام کے ساتھ اپنی سرحد ’جنوبی شام میں سکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے‘ بند کر دی ہے۔
دوسری جانب کرد زیرقیادت فورسز نے دیر الزور شہر پر قبضہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے جو ملک کے مشرق میں وسیع ریگستان میں حکومت کا اہم گڑھ ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے تصدیق کی ہے کہ باغیوں کا مقصد بشارالاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹنا ہے۔