ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق امریکہ کی ایک تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس کے اندازوں کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے نئے حملوں یا مغرب کی اضافی پابندیوں کا جواب تہران جوہری پابندی کی حد عبور کرنے کے مزید قریب جانے کی صورت میں دے گا۔
جمعرات کو نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر کے دفتر سے جاری ہونے والی ایک غیر خفیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ تہران کا فی الحال جوہری ہتھیار بنانے کا ارادہ نہیں ہے لیکن اس کی سرگرمیاں اس نوعیت کی ہیں کہ اگر وہ چاہے تو وہ ایسا کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جولائی کے بعد سے ایران نے اپنے یورینیم کے 20 فی صد اور 60 فی صد افزودہ ذخائر میں اضافہ جاری رکھا ہوا ہے اور وہ جدید سینٹری فیوجز بڑی تعداد میں بنا بھی رہا ہے اور انہیں استعمال بھی کر رہا ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کے جائزے میں خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اب ایرانی حکام جوہری ہتھیاروں کی افادیت پر عوامی سطح پر زیادہ بات کرنے لگے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق تہران کے پاس متعدد زیر زمین جوہری تنصیبات ہیں جن میں فوری طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی سطح کا افزودہ یورینیم تیار کرنے کا بنیادی ڈھانچہ اور تجربہ موجود ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ایرانی رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ جوہری ہتھیار بنانے سے خطرات کا مقابلہ کرنے کی ساکھ بڑھ جاتی ہے۔
او ڈی این آئی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے پاس موجود افزودہ یورینیم کے ذخائر، شہری مقاصد کے لیے اس کی جوہری ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ کہ اگر تہران اپنے یورینیم کے تمام ذخیرے کو افزودہ کر کے ایک درجن سے زیادہ جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔
امریکی انٹیلی جنس کی تازہ رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اب تہران مغربی دباؤ اور حملوں یا دیگر خطرات سے نمٹنے کے لیے جوہری سرگرمیوں میں اضافے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
او ڈی این آئی کی رپورٹ میں یہ خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ ایران ممکنہ طور پر مزید جدید سینڑی فیوجز لگانے یا انہیں استعمال کرنے پر غور کرے گا اور اپنے افزودہ یورینیم کے ذخیرے میں اضافہ کرے گا اور اسے 90 فی صد تک افزودہ کرے گا یا جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے الگ ہونے کی دھمکی دے گا۔
اس سے قبل امریکی حکام نے خبردارکیا تھا کہ تہران ایک سے دو ہفتوں کے اندر جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔ جب کہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پینٹاگان کے پاس ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کا آپشن موجود ہے۔
اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے اس رپورٹ پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔