بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچستان میں جاری اعلانیہ فوجی آپریشن و بربریت میں جبری گمشدگیوں میں اضافے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ بلوچ افراد کی جبری گمشدگیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ بلوچ قوم کو بدترین ظلم و جبر کا سامنا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی پریشان کن رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں۔ سینکڑوں بے گناہ افراد اور ان کے خاندانوں کو جبری گمشدگیوں کے ظالمانہ عمل کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، اور بہت سے معاملات میں، ان متاثرین کو پھانسی دی جاتی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ بلوچ عوام کی نسل کشی میں شدت آتی جا رہی ہے، اس کے باوجود انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے، کیونکہ بلوچوں کی جانوں سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ واضح ہے کہ ہمارے جینے یا مرنے سے دنیا کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ریاستی تشدد اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ آج صرف ایک ہی واقعہ میں ایک گھر سے آٹھ بلوچ افراد کو زبردستی لاپتہ کر دیا گیا، جس میں ایک بزرگ شخص ڈاکٹر ظفر اور اس کے بیٹے رحیم بلوچ سمیت کوئی مرد نہیں چھوڑا۔ مزید برآں، ڈاکٹر ظفر کے پانچ مہمانوں کو ان کے گھر سے زبردستی اغوا کر لیا گیا۔ اگرچہ ڈاکٹر ظفر کو بعد میں شدید تذلیل اور تشدد کے بعد رہا کر دیا گیا تھا، لیکن باقی لوگ جبری طور پر غائب ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) اس بات پر گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے کہ ہماری پرامن کوششوں کے باوجود ہم جس نسل کشی کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ جب تک ہمارے لوگ اس طرح کی بربریت برداشت کرتے ہیں ہم کبھی بھی لاتعلق نہیں رہیں گے اور نہ ہی رہ سکتے ہیں۔ بی وائی سی جاری بلوچ نسل کشی کے خلاف مزاحمتی تحریک کو مضبوط اور وسعت دے گی۔