بلوچستان میں تشدد و فوجی آپریشن مسئلے کا حل نہیں،ریاست مذاکرات کا راستہ اپنائے، وی بی ایم پی

ایڈمن
ایڈمن
6 Min Read

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ ، وائس چیئر مین ماما قدیر بلوچ، بلوچ وومن فورم کے سربراہ ڈاکٹر شلی بلوچ نے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں وی بی ایم پی کے کیمپ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں تشدد اور فوجی آپریشن مسئلے کا حل نہیں ہے ریاست کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کا راستہ اپنائے۔

اس موقع پر حوران بلوچ اور دیگر بھی موجود تھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ آج پریس کانفرنس کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ صحافی حضرات کا توجہ آواران میں ڈی سی آفس کے سامنے دلجان کی باجفاظت بازیابی کے لیے دھرنے پر بیٹھے ہوئے خواتین و بچوں کی احتجاج کی طرف مبذول کروانا ہے آج دلجان کی جبری گمشدگی کے خلاف خواتین اور بچوں کا احتجاجی دھرنا پانجواں روز بھی جاری ہے اس سردی کے موسم میں خواتین اور بچے دن رات احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں انکا مطالبہ ہے کہ دلجان پر کوئی الزام ہے تو انہیں منظر عام پر لاکر عدالت میں پیش کرکے صفائی کا موقع فراہم کیا جائے اگر بے قصور ہے تو فوری طور پر رہا کرکے خاندان کو ذہنی اذیت سے نجات دلائی جائے۔

انہوںنے کہا کہ دلجان کو 12جون 2024 کو ضلع آواران کے علاقے تیرتیج مزار آباد سے فورسز نے ماورائے آئین گرفتاری کے بعد جبری لاپتہ کردیا دلجان کی فیملی نے ان کی جبری گمشدگی کے خلاف رواں سال 4 اکتوبر کو ڈی۔سی آفس آواران کے سامنے احتجاج دھرنا دیا لواحقین کا دھرنا 4 دن تک جاری رہا ضلع کے ڈی۔سی عائیشہ زہری ،میراورنگ زیب اور تحصیل کے اے۔سی مجیب الرحمن نے لواحقین سے مزاکرات کرکے انہیں یقین دھانی کرائی کہ دلجان 10 دن میں گھر پہنچ جاۓ گا اب ایک مہینہ پورا ہوگیا ہے لیکن انتظامیہ دلجان کے حوالے سے انکے لواحقین کو کچھ بھی معلومات فراہم نہیں کر رہا ہے جسکی وجہ سے دلجان کے لواحقین نے دوبارہ ڈی سی آواران کے سامنے 5 روز سے دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں اور دلجان کی باحفاظت بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے فورسز انہیں مختلف طریقے سے حراساں کرکے احتجاج ختم کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں جو ملکی قوانین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے جسکی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کا وہ ڈی سی آواران کے آفس کے سامنے دلجان کی جبری گمشدگی کے خلاف دھرنے پر بیٹھے ہوئے خواتین اور بچوں کے احتجاج کا نوٹس لے اور ان سے بامقصد مزاکرات کرکے دلجان کی باحفاظت بازیابی کو فوری طور پر یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرے تاکہ دلجان کی جبری گمشدگی کے وجہ سے انکے لواحقین جو ذہنی کرب و اذیت میں مبتلا ہے ان سے انہیں نجات مل سکے۔

پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز وزیراعظم کے سربراہی میں ہونے والے ایپکس کمیٹی نے بلوچستان میں فوجی آپریشن کی منظوری دے دی جو باعث تشویش ہے اور اسے ہم غلط فیصلہ سمجھتے ہیں اگر دیکھا جائے بلوچستان میں جب بھی طاقت کا استعمال کیاگیا ان سے کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ ہر فوجی آپریشن کے بعد حالات زیادہ خراب ہوئے بلوچستان میں ملکی آئین و قانون اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے مسخ شدہ لاشیں پھنکی گئی تو اس سے عام لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالیں گے اور ان کے نتائج بھی منفی برآمد ہونے کے ساتھ صوبے میں بدامنی، نفرت اور شدت پسندانہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوںنے کہا کہ اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں طاقت کے استعمال سے گریز کرکے بامقصد مزاکرات کے حوالے مثبت فیصلے کرے اہل بلوچستان کے احساس محرمیوں کا ازالہ کرے تمام لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنائے جن لاپتہ افراد پر الزام ہے انہیں عدالتوں میں پیش کرے جبری لاپتہ افراد کو فیک انکاونٹر میں قتل کرنے کے سلسلے کو بند کیاجائے جو ریاست کے مجرم ہے انہیں عدالت کے زریعے سزا دی جائے اور جبری گمشدگیوں کے مسلے کو ملکی قوانین کے تحت حل کرانے کے حوالے سے فوری طور پر عملی اقفامات اٹھائے جائے ۔

آخر میں ان کا کہنا تھا کہ تشدد کسی مسلے کا حل نہیں ہے اور پر تشدد واقعات میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں سرزد ہوتی ہے اسلیے ہم بلوچ مسلح تنظیموں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے پر تشدد واقعات کو ترک کرے اور بلوچستان کے مسلے کے حل کے حوالے سے بات چیت اور پرامن جد و جہد کا راستہ اپنائے۔

Share This Article
Leave a Comment