کوئٹہ : بی ایم سی گرلز ہاسٹل میں پولیس تعینات ، طالبات کو ہراسانی کا سامنا

0
15

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں گذشتہ شب تعلیمی ادارے بی ایم سی میں کوئٹہ پولیس نے ہاسٹل پر دھاوا بول کر پورے ہاسٹل کو قبضہ میں لے کر طالبعلموں پر تشدد کرکے انہیں زبردستی گرفتار کیااور طالبات کو ہراساں کیا گیا۔

واقعہ کے ردعمل میں پشتون و بلوچ طلبا نے احتجاج کیا اور پریس کانفرنس بھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ تمام بلوچ و پشتون طلباء کی فوری رہااور بی ایم سی ہاسٹلز کو کھولا جائے ۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر تما طلبا کو رہا نہیں کیا گیا اور بی ایم سی ہاسٹل کو نہیں کھولا جائے گا تو بلوچستان بھر میں سخت ردعمل دیا جائے گا۔

گذشتہ دن بلوچستان بھر کے طلبا نے مشترکہ طور پر پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور پولیس ودیگر فورسزکی غنڈہ گردی وہراسانی کی شدید مذمت کی۔

https://twitter.com/BSAC_org/status/1857304402748661801

اب اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ بی ایم سی گرل ہاسٹل میں پولیس تعینات کردی گئی ہے جو طالبات کو ہراساں کر رہی ہے۔

اس سلسلے میں بلوچ اسٹوڈنٹس کمیٹی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر گرلز ہاسٹل کے اندرونی مناظر کے تصاویر شیئر کئے جن میں خواتیں پولیس اہلکاروں کو دیکھا جاسکتا ہے ۔

بلوچ اسٹوڈنٹس کمیٹی نے کہا کہ بی ایم سی گرلز ہاسٹل کے سامنے پولیس کی نفری پہنچ کر طالبات کو مسلسل ہراساں کررہی ہے اور انہیں زبردستی ہاسٹل سے نکالنے کی کوشش کررہی ہے ۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ پولیس کی غنڈہ گردی اور طالبات کو مسلسل ہراساں کرنا بدستور جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہاسٹل میں پانی کی رسائی منقطع کردی گئی ہے، سارے بی ایم سی کو پولیس نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اس سے پہلے نامعلوم نمبر کے ذریعہ طلبہ کو فون کرکے دھمکیاں بھی دی گئی تھی کہ ہاسٹل کو خالی کریں وگرنہ اپنی ذمہ دار خود ہونگے۔

بساک ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر طالبات سمیت کسی بھی طالبعلم کو کچھ ہوا تو اس کا مہ دار ضلعی انتظامیہ، بی ایم سی انتظامیہ، ڈسٹرکٹ پولیس و حکومتی نمائندے ہونگے۔

ترجمان نے کہا کہ گزشتہ دنوں کوئٹہ پولیس کی جانب سے بی ایم سی ہاسٹل پر دھاوا بول کر طالبعلوں پر تشدد اور انہیں غیر قانونی طریقے سے گرفتار کیا تھا جس کے بعد طالب علم جیل میں قید تھے۔ مختلف کوششوں کے بعد تمام طالبعلم صبح تک رہا کر دیے گئے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here