کوئٹہ : طلبا تنظیموں کا تمام بلوچ و پشتون طلبا کی فوری رہائی و ہاسٹلز کھولنے کا مطالبہ

ایڈمن
ایڈمن
7 Min Read

بلوچستان کے طلبا تنظیموں نے کوئٹہ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے تمام بلوچ و پشتون طلباء کی فوری رہائی اور بی ایم سی ہاسٹلز کو کھولنے کا مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر تما طلبا کو رہا نہیں کیا جائے اور بی ایم سی ہاسٹل کو نہیں کھولا جائے گا تو بلوچستان بھر میں سخت ردعمل دیا جائے گا۔

پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات بولان میڈیکل کالج میں ایک انتہاہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں کوئٹہ پولیس نے تمام تر روایات کو پامال کرتے ہوئے بی ایم سی کے ہاسٹل پر دھاوا بول کر پورے ہاسٹل کو قبضہ میں لے کر طالبعلموں پر تشدد کرکے انہیں زبردستی گرفتار کیا۔طلباء پر آنسو گیس کا استعال کرکے ان پر تشدد کی گئی اور فیمیل طالبعلموں کو زدوکوب کیا گیا۔ یہ سارے اعمال پولیس کی غنڈی کردی سوچ و کالج انتظامیہ کی ناہلی کو ظاہر کرتی ہے۔ اس فسوسناک واقیعہ کے زمہ دار کوئٹہ پولیس سمیت، کالج انتظامیہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں بولان میڈیکل کالج میں طلبہ کی درمیان ایک معمولی لڑائی ہوئی تھی جس کو ہم اپنے طریقے سے پرامن حل کرنے کے لیے کوشاں تھے۔ اکثر جب طالبعلموں کے درمیان چھوٹے سے مسائل پر ایسے لڑائی جگڑے جب ہوتے ہیں تو ہم آپس میں مل بیٹھ کر انہیں سلجھاتے ہیں اور بات وہی ختم ہوجاتی ہے۔ یہی روایات اسی جگڑے پر بھی اپنائی جارہی تھی مگر کوئٹہ پولیس نے غنڈہ گردی کرتے ہوئے درمیان میں دخل دیا جس سے بات بگڑ کر اس نہج پہر پہنچی ہے۔ پولیس و انتظامیہ نے ایک سوچھی سمجھی سازش کے تحت طالبعلموں کے درمیان چھوٹے سے مسئلہ کو جواز بنا کر بی ایم سی ہاسٹل میں داخل ہوکر بہت سے بلوچ و پشتون طالبعلموں پر تشدد کرکے انہیں زبردستی گرفتار کیا۔ جب اس عمل کے خلاف طلبہ نے مین گیٹ پر دھرنا دیکر طالبعلموں کی رہائی کا مطالبہ کیا، اسی درمیان مزاکرات جاری تھی کہ پولیس نے تمام تر بلوچ و پشتون روایات سمیت ملکی قوانین کو پامال کرتے ہوئے طلبہ پر چھڑائی کرکے ان پر آنسو گیس پھینکے، لاٹھی چارج کیا، فیمیل طالبات پر ناروا زبان استعمال کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ تشدد سے بہت سے طلبہ زخمی و بے ہوش ہوئے جبکہ کئی طالبعلموں کو گیٹ پر تشدد کرکے انہیں گھسیٹ کر وینوں میں ڈالا گیا جبکہ ان میں فیمیل طالعلم بھی شامل تھے جنہیں بعد میں رہا کروایا گیا جبکہ باقی ابھی تھانے میں بند ہیں۔

طلبا رہنمائوں نے کہا کہ جب ہاسٹل سے کئی بلوچ و پشتون طالبعلموں کو زبردستی گرفتار کرکے بعد میں مین گیٹ پر طلبہ پر تشدد کرکے انہیں گرفتار کرنے کے بعد بھی پولیس کی دل نہیں بھرا، انہوں نے تعصب کرتے ہوئی بروری میں گُلیمار چوک، عیسئ نگری، اے ون سٹی سمیت اردگرد سارے علاقے میں گشت کررتے ہوئے بلوچ ہونے کے پہچان پر کئی نوجوانوں پر تشدد کرکے انہیں گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے انتہائی متعصبانہ رویہ اپنا کر گشت کرتے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو ٹارگٹ کرتے ہوئے انہیں بلوچی چادر سے پہچان کرکے ان پر تشدد کیا اور انہیں گرفتار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بولان میڈیکل کالج میں جو واقعہ ہوا جس میں کوئٹہ پولیس نے انتہائی غنڈہ گردی و بدمعاشی کرتے ہوئے بلوچ و پشتون طالبعلموں پر تشدد کرکے انہیں زبردستی گرفتار کیا اور ہاسٹل کو زبردستی اپنے قبضے میں کے کر سیل کردیا۔ یہ ساری چیزیں سوچی سمجھی سازش کے تحت کیے گئے، پولیس سمیت کچھ عناثر یہ چاہتے ہیں کہ بلوچ و پشتون آپس میں لڑیں اور الٹا الزام طالعلموں پر ڈال دیں۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک چھوٹی سی مسئلہ پر چند ہی لمحوں میں پولیس کی بھاری نفری ہاسٹل پہنچ کر ساری ہاسٹل پر اپنا قبضہ جماتا ہے۔ یہ ساری چیزیں سوچی سمجھی سازش ہے جو ہمیں آپس میں لڑانے کےلیے کیے گئے ہیں۔ بی ایم سی میں لڑائی ایک معمولی مسئلہ پر کی گئی تھی جس کو ہم اپنے رویات سے حل کرنے کی کوشش میں تھے، اسی کو جواز بناکر ہاسٹل پر دھاوا بول کر طالبعموں کی تشدد و گرفتاریاں تعلیمی اداروں میں فورسز کی اجارہ داری کو واپس لانے کی ایک ناکام سازش ہے جو ہمیں کسی صورت قابل قبول نہیں۔

پریس کانفرنس میں ان کہنا تھا کہ تعلیمی ادارے تدریس کے درسگاہ ہوتے ہیں جہاں خوشگوار ماحول میں ہی تعلیم سیکھی جاتی ہے، ہر چھوٹے مسئلے پر پولیس و سیکورٹی فورسز کی دخل اندازی نا صرف تعلیمی اداروں کی ماحول کو خراب کرتی ہے بلکہ تعلیمی اداروں کو ملیٹرائزشن کرنے کے زمرے میں آتی ہے۔ ہم یہ ساری چیزیں سمجھتے ہیں کہ کچھ عناصر بلوچ اور پشتون قوم کو لڑانے کی سازشیں کرہے ہیں، تعلیمی اداروں کو ملٹرائزیشن کرنے کی سازش سمیت تعلیمی اداروں میں فعال بلوچ و پشتون طلبہ تنظیموں پر منفی پروپگندہ کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔

انہوں نے اپنے مطالبات پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم تمام حکومتی نمائندوں و انتظامیہ کو واضح کرتے ہیں کہ یہ جارحانہ رویہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ اس پریس کانفرینس کے توسط سے زمہ داراں کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اگر یہ غنڈہ گردی ختم نہیں کی گئی تو ہم سخت سے سخت اپنا جمہوری ردعمل اپنا سکتے ہیں۔

ان کے مطالبات میں رات تک تمام بلوچ و پشتون جتنے بھی گرفتار ساتھیوں کو رہا کیا جائے۔
ان کے خلاف جتنے بھی بوگس ایف آئی آر ہیں انہیں واپس لیا جائے۔
بی ایم سی کے تمام ہاسٹلوں کو کھول کر انہیں فعال کیا جائے۔
اس واقعہ میں ملوث تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی جائے جن میں پولیس افسران سمیت کالج انتظامیہ شامل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر رات تک ان مطالبات پہ عمل درآمد نہیں ہوا تو بلوچستان بھر کے طلباء تنظیمیں سخت احتجاجی ردعمل اپنائیں گے۔

Share This Article
Leave a Comment