فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت کے دروازے کھول دیے، جسٹس منصور علی شاہ

0
13

پاکستان کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں سپریم کورٹ کے پانچ ججز نے شرکت نہیں کی۔

ان میں سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس شہزاد احمد خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔

اس الوداعی ریفرنس میں مجموعی طور پر 16 ججز نے شرکت کی جن میں سپریم کورٹ کے دو ایڈہاک ججز کے علاوہ فیڈرل شریعت کورٹ کے بھی دو ججز شامل ہیں۔

سپریم کورٹ کے سینئیرجج جسٹس منصور علی شاہ نے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے الوداعی فل کورٹ میں شرکت نہ کرنے سے متعلق وضاحت جاری کی ہے۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھے گئے خط میں جسٹس منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے الوداعی فل کورٹ ریفرنس میں بھی شرکت نہیں کی تھی کیونکہ ان کی تعیناتی قواعد سے ہٹ کر کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کا الوداعی ریفرنس میں شرکت نہ کرنے کی وجوہات مذید پرشان کن ہیں۔

اپنے خط میں جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کا کردار عوام کے حقوق کا تحفّظ کرنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کا دفاع کرنا بھی ہے لیکن اس معاملے میں قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ پر بیرونی دباؤ نظر انداز کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس نے عدلیہ میں مداخلت روکنے کی بجائے اس کے دروازے کھول دیے۔ اس خط میں جسٹس منصور علی شاہ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت اور اس کے ساتھ ساتھ عدلیہ میں مداخلت قاضی فائز عیسیٰ کی ملی بھگت سے ہوئی۔

انھوں نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں مداخلت پر شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دبائے رکھا۔

جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ قاضی فائزعیسیٰ عدلتی رواداری اور ہم آہنگی قائم کرنے میں ناکام رہے اور ان کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔

قاضی فائز عیسی کے اختلافی نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں کہا کہ انھوں نے شرمناک انداز میں کہا کہ عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔

انھوں نے اپنے خط میں یہ بھی کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی اور ججز میں تفریق کے اثار تادیر عدلیہ پر رہیں گے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس کو لکھے گئے خط میں کہا کہ ان کے اس خط کو فل کورٹ ریفرنس کے ریکارڈ کے طور پر رکھا جائے۔

جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ دیگر جن چار ججز نے اس الوداعی ریفرنس میں شرکت نہیں کی انھوں نے اپنی عدم شرکت کی وجوہات کا ذکر نہیں کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here