اسرائیل نےغزہ میں خوراک درآمد کرنے کی تاجروں کی درخواستوں پر کام روک دیا ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے تجارت میں شامل افراد کے حوالے سے خبر دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس اقدام سے غزہ کے لوگوں کے لیے گزشتہ چھ ماہ میں نصف سے زیادہ مہیا کی جانے والی خوراک کی راہ بند ہوگئی ہے۔
ذرائع کے مطابق گیارہ اکتوبر سے غزہ کے تاجروں کی "کوگاٹ” نامی اسرائیلی پروگرام تک رسائی ختم ہوگئی ہے جو اسرائیل اور مقبوضہ مغربی کنارے سے خوراک کی کمرشل شپمینٹ کا لام کرتا ہے۔ تاجروں کو اس معاملے پر رابطہ کرنے کی کوششیں بھی بےسود رہی ہیں۔
رائٹرز نےاسرائیل کے سرکاری ڈیٹا کے تجزیہ کی بنیاد پر رپورٹ کیا ہے کہ اس تبدیلی سے غزہ میں جنگ کے شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں اشیا کی درآمد اس وقت کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
اسرئیلی ایجنسی کوگاٹ نے رائٹرز کے رابطہ کرنے پر غزہ میں خوراک کی درآمد اور امداد کے حوالے سے سوالوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔
ایجنسی کا کہنا ہے کہ وہ تمام ممکنہ اقدامات اٹھاتی ہے جن کے ذریعہ کافی مقدار میں امداد غزہ کی ساحلی پٹی میں داخل ہوسکے۔ ایجنسی کہتی ہے کہ اسرائیل انسانی امداد کی ترسیل کو نہیں روکتا۔
کوگاٹ نے ایسے تمام الزامات مسترد کردیے ہیں کہ اسرائیل نے امداد کی ترسیل پر پابندی لگائی ہے۔
یکم اکتوبر اور سولہ اکتوبر کے دوران غزہ میں امداد اور کمرشل سامان کی آمد کم ہو کر اوسطاً 29 ٹرک یومیہ رہ گئی ہے۔
کوگاٹ کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ موجودہ تعداد کے مقابلے میں مئی اور ستمبر میں ہر روز 175 ٹرک غزہ داخل ہوتے تھے ۔
مقامی تاجر کوگاٹ کی منظوری سے کمرشل سامان درآمد کرتے تھے جنہیں بعد میں مارکیٹ میں بیچا جاتا تھا۔
یکم اکتوبر اور سولہ اکتوبر کے دوران تاجروں کی درآمد کردہ کمرشل شپمنٹ کل خوراک کا 55 فیصد تھا۔
خوراک کی تجارت سے وابستہ دو ذرائع نے بتایا کہ کمرشل سامان کی ترسیل کو اس لیے روکا گیا کیونکہ اسرائیل کو یہ پریشانی تھی کہ عسکریت پسند گروپ حماس درآمدات سے ٹیکسوں کی صورت میں حاصل ہونے والی آمدنی حاصل کر رہا تھا۔
حماس کے ایک ترجمان نے اس تاثر کو مسترد کردیا کہ تنظیم نے خوراک میں ہیرا پھیر کی یا اس نے اس کی درآمد سے پیسہ بنایا۔ حماس نے کہا کہ وہ غزہ میں امداد پہنچانے کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔
امدادی سامان کے داخلے میں کم ہوتی تعداد کے تناظر میں امریکہ نے اسرائیل کو دھمکی دی ہے کہ واشنگٹن اس کی فوجی امداد کو روک دے گا۔
اسرائیلی اقدام نے ان خدشات کو ہوا دی ہے کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے۔
فوڈ سکیوریٹی کے عالمی ادارے آئی پی سی نے کہا ہےکہ حالیہ لڑائی کی وجہ سے غزہ میں تباہ کن بھوک کے شکار لوگوں کی تعداد دو گنا بڑھ سکتی ہے۔
غزہ کی 23 لاکھ آبادی کے لیے جو تقریباً تمام ہی بے گھر ہو چکی ہے کافی مقدار میں خوراک پہنچانا اس جنگ کے پیچیدہ ترین مسائل میں سے ایک رہا ہے۔
مئی میں انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جائیں۔
انہوں نے اس شبہ کا اظہار کیا کہ اسرائیل شہریوں کی فاقہ کشی کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
اسرائیلی حکام نے ان الزامات سے انکار کیا ہے اور کہا ہےکہ مشکل حالات کے باوجود انہوں نے خوراک کی ترسیل میں سہولت مہیا کی ہے۔