کراچی : رواداری مارچ پر فورسز کا حملہ ، سندھی دانشور جامی چانڈیوو ، سورٹھ سندھو سمیت متعدد افراد گرفتار

0
26

کراچی میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف رواداری مارچ پرکراچی پریس کلب کے باہر پولیس حملہ کرکے احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کیا۔

کراچی پولیس نے پریس کلب کے باہر سے سندھ کے دانشور ادیب جامی چانڈیو، ان کی بیٹی، سورٹھ سندھو سمیت متعدد افراد کو گرفتارکر لیا ہے۔

واضح رہے کہ عمرکوٹ کے ڈاکٹر شاہنواز کے ماورائے عدالت قتل اور ان کی لاش کی بے حرمتی کے خلاف جاری احتجاج کے سلسلے میں رواداری مارچ کا اعلان کیا گیا تھا جس میں ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ کو بھی شریک ہونا تھا۔

کراچی میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف رواداری مارچ کے اعلان اور تحریک لبیک پاکستان کا بھی اسی مقام پر ریلی کا فیصلہ سامنے آنے پر پولیس نے سپر ہائی وے سمیت شہر کی کئی شاہراہوں پر ناکہ بندی کردی ہے۔

اسی دوران تحریک لبیک پاکستان نے بھی تین تلوار سے ریلی نکالنے کا اعلان کیا اور اپنے کارکنوں کواس مقام پر پہنچنے کی ہدایت کی۔

کچھ دیر قبل جب صحافیوں کی جانب سے سوال کیا گیا تھا کہ اجرک اور سندھی ٹوپی پہننے والوں کو ترجیحی بنیادوں پر گرفتار کیا جارہا ہے تو ڈی آئی جی اسد رضا نے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔

واضح رہے کہ عمرکوٹ کے ڈاکٹر شاہنواز کے ماورائے عدالت قتل اور ان کی لاش کی بے حرمتی کے خلاف جاری احتجاج کے سلسلے میں رواداری مارچ کا اعلان کیا گیا تھا جس میں ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ کو بھی شریک ہونا تھا۔

روادری مارچ کی سربراہ سندھو نواز نے بی بی سی کو بتایا کہ گزشتہ شب حیدرآباد میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ اس کے علاوہ قوم پرست رہنما نیاز کالانی اور ریاض چانڈیو کے گھروں پر چھاپے مار کر انھیں حراست میں لیا گیا ہے۔

رواداری مارچ کے شرکا کو کراچی کے علاقے تین تلوار سے پریس کلب تک جانا تھا اور اس کے لیے انسانی حقوق کمیشن، روادری تحریک، عورت مارچ، اقلیتی مارچ، وومین ڈیمورکریٹک فرنٹ سمیت سول سائٹی کی متعدد تنظیموں نے حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔

اسی دوران تحریک لبیک پاکستان نے بھی تین تلوار سے ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے اور اپنے کارکنوں کواس مقام پر پہنچنے کی ہدایت کی ہے۔

کراچی میں شارع فیصل پر ایف ٹی سی کے مقام پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ہیں جبکہ ریلی کے مقام تین تلوار کو بھی چاروں طرف سے بند کردیا گیا ہے۔

اسی طرح پریس کلب کے راستے بھی بند کردیے گئے ہیں جہاں صحافیوں کو بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔

رواداری مارچ اور انتظامیہ میں مذاکرات بھی ہوئے تاہم اس کے بعد انتظامیہ نے شہر میں دفعہ 144 نافذ کرکے جلسے، جلوسوں اور ریلی نکالنے پر پابندی عائد کردی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ کشیدگی سے بچنے کے لیے یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔

ڈی آئی جی اسد رضا کا کہنا ہے کہ یک طرفہ گرفتاریاں نہیں ہوئیں بلکہ فریقین کو گرفتار کیا جارہا ہے۔

پولیس کے مطابق کلفٹن سے ایک مذہبی جماعت کے کارکنوں سمیت 20 افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔

حیدرآباد سے کراچی سفر کر نے والے صحافی سنجے سادھوانی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ سپر ہائی وے پر جام شورو اور کراچی ٹول پلازہ کے مقام پر پولیس ہر گاڑی کو روک کر چیک کر رہی ہے اور اگر کوئی فرد اس مارچ میں شرکت کے لیے آ رہا ہے تو اس کو گاڑی سے اتار دیا جاتا ہے۔ اس دوران پولیس اور لوگوں کی تلخ کلامی بھی ہوئی ہے۔

رواداری مارچ کی سربراہ سندھو نواز کا کہنا ہے کہ حیدرآباد کے علاوہ بدین، ٹھٹہ اور دیگر شہروں کے باہر بھی پولیس نے ایس ایس پیز کی سربراہی میں ناکہ بندی کی ہوئی ہے تاکہ لوگ مارچ میں شریک نہیں ہوں۔

’کراچی میں بھی ہر جگہ پولیس مقرر کردی گئی ہے۔ اگر اتنی پولیس شاہنواز کے تحفظ اور لاش کی بیحرمتی روکنے کے لیے لگائی جاتی تو اس احتجاج کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ ‘

انھوں نے بتایا کہ انتظامیہ سمیت دیگر اداروں نے مارچ ملتوی کرنے کے لیے ان پردباؤ ڈالا اور کہا کہ اس سے کشیدگی ہوگی۔

ان کے مطابق اس کے بعد پریس کلب پر مارچ کا فیصلہ کیا گیا وہاں بھی پولیس کھڑی کردی گئی ہے۔

دوسری جانب پریس کلب پہنچنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی گرفتاری کیا جارہا ہے جس میں سورٹھ سندھو بھی شامل ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here