پاکستان کی مالی معانت کرتے وقت دنیا کی آنکھیں بند ہیں، اطالوی صحافی

0
36

سوئٹرلینڈ کے شہر جنیوامیں بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کے زیر اہتمام پانچویں بلوچستان انٹرنیشنل کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران اطالوی صحافی فرانسسکا مارینو نے بلوچستان کے تاریخی اور موجودہ مسائل پر بات کی۔

انھوں نے کہا کہ بلوچستان پاکستان کا جائز حصہ نہیں ہے بلکہ اسے غداری اور فریب سے پاکستان کا حصہ بنایا گیا تھا، حقیقت میں بلوچستان ایک مقبوضہ علاقہ ہے، جسے غیر قانونی طور پر طاقت کے ذریعے چھینا گیا ہے۔

مارینو نے وضاحت کی کہ بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق میں جبر اور دھوکہ دہی شامل تھی، الحاق کی دستاویز پر جبری دستخط کروائے گئے جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اس وقت، بلوچستان میں ایک آئینی بادشاہت، کلات کی اسمبلی نے تحلیل سے پہلے دو بار الحاق کو مسترد کر دیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ یہ تاریخی حقائق پاکستان کی طرف سے بلوچستان کے ساتھ ایک کالونی کے طور پر موجودہ سلوک کی بنیاد آشکار کرتے ہیں۔ بلوچ عوام کو اسکولوں اور سرکاری اداروں میں ان کی زبان کے استعمال کے حق سمیت بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا ہے۔

انھوں نے محمد علی جناح کے کردار کی نشاندہی کی، جو بلوچستان کی آزادی کے لیے انگریزوں کے ساتھ مذاکرات کے دوران ابتدائی طور پر خان آف کلات کے قانونی مشیر تھے۔ ’’جناح نے خان آف قلات کے اعتماد کو دھوکہ دیا اور بلوچستان کو زبردستی پاکستان میں شامل کرنے میں سہولت کاری کی۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ کس طرح پاکستانی فوج بعد میں کلات میں داخل ہوئی اور خان کو الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔

مارینو نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح اس خطے کو جوہری تجربات اور ہتھیاروں کے ذخیرہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے جبکہ بلوچ عوام کو پسماندہ کیا گیا ،

” انھوں نے ضروری خدمات کی کمی اور فوج کی بھاری موجودگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’ بلوچستان میں، ہسپتالوں سے زیادہ فوجی چھاؤنیاں ہیں۔حیرت کی بات نہیں، کیونکہ وہاں بہت کم ہسپتال ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا بلوچستان میں موجودہ شورش خطے کی پانچویں بغاوت ہے، جو 2007 میں نواب اکبر بگٹی کے قتل کے بعد شروع ہوئی تھی۔ ’’ اس کے بعد سے، بغاوت جاری ہے۔‘‘

انھوں نے پاکستان کی حکمت عملی کو بیان کرتے ہوئے کہا ، ماورائے عدالت قتل، اجتماعی قبریں اور بلوچ عوام کی بڑے پیمانے پر گمشدگیاں: حکام ان گمشدگیوں کے لیے ناقابل فہم وضاحتیں پیش کرتے ہیں، کچھ حکام کا دعویٰ ہے کہ لوگ شاپنگ ٹرپ پر دبئی گئے تھے یا پہاڑوں میں باغیوں میں شامل ہو گئے تھے۔

مارینو نے پاکستان چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) پر تنقید کرتے ہوئے کہا سی پیک کے ذریعے بلوچستان میں چین کی مداخلت نے بلوچوں کو مزید پسماندہ کر دیا ہے۔ گوادر اشرافیہ کے کھیل کا میدان بن گیا ہے، جب کہ بلوچوں کو ترقی سے دور کردیا گیا ہے، صاف پانی، ماہی گیری اور بنیادی آزادیوں تک رسائی سے محروم رکھا گیا ہے،۔

انھوں نے کہا کہ چینی اور فوجی مفادات خطے کے مستقبل پر حاوی ہیں۔

انھوں نے تفصیلات پییش کیں کہ کس طرح بلوچستان کی سیندک اور ریکوڈک کانوں میں چینی سرمایہ کاری نے وسائل کا استحصال کیا ہے جبکہ سڑکیں اور انفراسٹرکچر چینی مفادات کے لیے بنائے گئے ہیں، جس کے بنیادی فوائد سے مقامی آبادی محروم ہے۔

مارینو نے نشاندہی کی کہ انسانی حقوق کی دستاویزی خلاف ورزیوں کے باوجود پاکستان کو جغرافیائی سیاسی تحفظات کی وجہ سے بہت کم بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ یہ بلوچستانی نسخہ اب پاکستان کے دیگر خطوں میں بھی آزما رہا ہے۔ پشتون، سندھی اور کشمیری علاقوں میں بھی اسی طرح کے جبر کیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے بین الاقوامی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان کا احتساب کرے ، اس کا واحد حل یہ ہے کہ پاکستان کو بین الاقوامی قانون کے تحت جوابدہ ٹھہرایا جائے، جس کا اطلاق تمام ریاستوں پر یکساں طور پر ہونا چاہیے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here