آسٹریلیا میں لاک ڈاﺅن سے عسکریت پسندوں کا زور بڑھ سکتا ہے، انٹیلی جنس

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

آسٹریلیا کے سیکیورٹی انٹیلی جنس محکمے کے سربراہ مائیک بر گیس نے کہا ہے کہ ان دنوں کرونا وائرس کی وجہ سے آسٹریلیا کے اکثر باشندے اپنے گھروں میں ہیں اور انٹرنیٹ کا استعمال کثرت سے کر رہے ہیں ، اس لاک ڈاﺅن کی وجہ سے جاسوسی ، مجرمانہ سرگرمیوں اور دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

سڈنی سے ہمارے نامہ نگار فل مرسی کی رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 نے ہیکرز، مجرموں اور دہشت گردوں کو سازگار مواقع فراہم کیے ہیں۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم ان پر نظر رکھیں اور سیاسی طور پر فعال غیر ملکی مداخلت کاروں کا قلع قمع کریں۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عسکریت پسند گروپ آسٹریلیا میں عوام کو ورغلا رہے ہیں اور اپنے نظریات کا پرچار کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آن لائن شاپنگ اور دوسرے آن لائن مالی لین دین کو ہیک کیا جا رہا ہے۔

اس طرح کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ غیر ملکی حکومتیں بھی کرونا وائرس کی آڑ میں حساس معلومات حاصل کر رہی ہیں۔

آسٹریلیا کے ایک غیر سیاسی ادارے سے خطاب کرتے ہوئے سیکیورٹی انٹیلی جنس محکمے کے سربراہ مائیک بر گیس نے کہا کہ کرونا وائرس کی وبا نے انتہا پسندوں اور مجرموں کو مواقع فراہم کیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ لوگ گھروں میں رہتے ہوئے ایسے گروپوں کے ساتھ آن لائن رابطے میں رہتے ہیں اور وہ لوگ اپنے انتہا پسندانہ نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں۔ ہم کو دوسرے انٹیلی جنس اداروں سے بھی ایسی ہی اطلاعات ملی ہیں۔

برگیس نے بعض ٹیک کمپنیوں کی پالیسیوں پر بھی تنقید کی کہ وہ سیکیورٹی اداروں کو معلومات حاصل کرنے کے لیے رسائی فراہم نہیں کرتے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ برگیس یہ نشان دہی اس بات کی عکاس ہے کہ آسٹریلیا کی انٹیلی جنس برادری مزید اختیارات حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ ایسے عناصر کی شناخت کرکے ان کی بیخ کنی کر سکے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال روکا نہیں جا سکتا ، کیوں کہ اسے بہت سے جائز کاموں کے لیے استعمال کیا جانا ناگزیر ہے۔ اس میں تجارت اور بینکنگ شامل ہے۔

آسٹریلیا کے سیکیورٹی انٹیلی جنس محکمے کے سربراہ مائیک بر گیس نے یہ بھی کہا کہ ذاتی معلومات اور سیکیورٹی کے تقاضوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اختیارات کا دوبارہ جائزہ لینا چاہئے۔ اس کی مخالفت کرنے والےشہری آزادی کے علم برداروں کا خیال ہے کہ یہ مزید طاقت حاصل کرنے کا ایک حربہ ہے۔

Share This Article
Leave a Comment