پوپ فرانسس و امام اعظم نصرالدین عمر کا مذہبی تشدد کیخلاف مشترکہ جدوجہد کا عزم

ایڈمن
ایڈمن
4 Min Read

پوپ فرانسس اور جنوب مشرقی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد ’اسقلال‘ کے امام اعظم نے جمعرات کو فرانسس کے دورہ انڈونیشیا میں بین المذاہب دوستی اور مشترکہ مقصد کے لیے اپیل جاری کرتے ہوئے مذہبی تشدد کا مقابلہ کرنے اور ماحولیات کے تحفظ کا عزم کیاہے۔

جکارتہ کی مشہور استقلال مسجد میں، پوپ نے ایک بین المذہبی اجتماع کی صدارت کی جس میں انڈونیشیا میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ چھ مذاہب اور عقائدکے نمائندے موجود تھےجن میں اسلام، بدھ مت، کنفیوشس ازم، ہندو مت،اور مسیحی مذہب کےفرقے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ شامل ہیں۔

پوپ فرانسس اور امام اعظم نصرالدین عمر”دوستی کی سرنگ” میں داخل ہوئے جو مسجد کے احاطے کو قریب واقع کیتھولک چرچ سے جوڑتی ہے۔

انڈونیشیا، جہاں دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی ہے، اس سرنگ کو مذہبی آزادی کے لیے اپنی وابستگی کی ایک واضح علامت سے تعبیر کرتا ہے، جو کہ آئین میں شامل ہے ۔ تاہم اسے مذہبی اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کے واقعات کی وجہ سے چیلنج بھی کیا گیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے فرانسس کے دورے کے موقع پر توجہ دلائی کہ جنوری 2021 سے جولائی 2024 تک وہاں عدم برداشت کے کم از کم 123 واقعات ہوئے، جن میں عبادت گاہوں کو بند کرنا یا تباہ کرنا اور جسمانی حملے شامل ہیں۔

سرنگ تک پہنچتے ہوئے، فرانسس نے کہا کہ یہ اس بات کی قوی علامت ہے کہ کس طرح مختلف مذہبی روایات "زندگی کی سرنگوں سے گزرنے والوں کی مدد میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں جب ہماری آنکھیں روشنی کی جانب ہوتی ہیں۔”

انہوں نے ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے انڈونیشی باشندوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ "خدا کی تلاش کریں اور ایسے کھلے معاشروں کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کریں جن کی بنیاد باہمی احترام اور باہمی محبت پر رکھی جائے۔ جو اس تنگ نظری، بنیاد پرستی اور انتہا پسندی سے محفوظ رہنےکی صلاحیت رکھتے ہوں جو ہمیشہ ہی خطرناک اور کبھی بھی قابل جواز نہیں ہوتی۔”

فرانسس کا انڈونیشیا کا سفر انکے 11 روزہ چار ملکی سفر کا پہلا مرحلہ ہے جس کا مقصد مذہبی تشدد کا مقابلہ اور کیتھولک چرچ کی جانب سے ہم آہنگی کے وسیع تر اقدامات کے عزم کو فروغ دینا ہے۔

مسجد میں ہونے والی ملاقات میں ایک اہم ذاتی پہلو بھی سامنے آیا، جس میں 87 سالہ پوپ اور 65 سالہ امام اعظم نے ایک دوسرے کے لیے واضح وابستگی کا اظہار کیا۔ جب فرانسس اپنی وہیل چیئر پر جا رہے تھے تو عمر نے جھک کر انکے سر پر بوسہ دیا۔ جس کے بعد پوپ نے امام عمر کا ہاتھ پکڑ کر اسے چوما اور اپنے گال سے لگالیا۔

فرانسس نے کیتھولک-مسلم تعلقات میں بہتری لانےکو اپنے پوپ کے عہد کا خاصہ بنایا ہے اور اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے اکثریتی مسلمان آبادی والے ممالک کے سفر کو ترجیح دی ہے۔

مشرق وسطیٰ کے 2019 کے سفر کے دوران، فرانسس اور سنی مکتبہ فکرکی ایک ہزار سال پرانی درسگاہ الازہر کے مفتی اعظم نے، "انسانی برادری” کی تحریک کا آغاز کیا تھا جس میں دنیا بھر میں امن کے فروغ کے لیے زیادہ سے زیادہ مسیحی۔مسلم کوششوں کی اپیل کی گئی۔

اس کے بعد پوپ فرانسس نے 2021 میں عراق کے شہر نجف کا سفر کیا تاکہ وہ وہاں اعلیٰ شیعہ عالم سے ملاقات کر سکیں، جنہوں نے پرامن بقائے باہمی کا پیغام دیا۔

Share This Article
Leave a Comment