بی وائی سی کی گرفتار قیادت کی زندگیوں سے متعلق شدید خدشات لاحق ہیں،ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

0
64

بلوچستان کے ساحلی شہر و سی پیک مرکز گوادر میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنما ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے پدی زر(میرین ڈرائیو)میں جاری دھرنے سے پریس کانفرنس کر تے ہوئے کہا کہ قومی اجتماع کو دبانے کی متعدد کوششوں میں پاکستانی ریاست نے متعدد افراد کو شہید اور زخمی کیا اور سینکڑوں کو گرفتار کرکے نامعلوم مقامات پر منتقل کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ گوادر دھرنے کو ریاستی فورسز نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور امکان ہے کہ وہ کسی بھی وقت پرامن احتجاج پر ایک اور حملہ کر سکتے ہیں۔

انہوںنے کہا کہ گوادر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مرکزی رہنماوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان اس وقت مکمل ایک جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی 28 جولائی کو گوادر میں ایک قومی اجتماع کا اعلان کیا تھا۔ 20 جولائی سے ریاست پاکستان نے بلوچ قومی اجتماع کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کا کہنا تھا کہ ریاست پاکستان اپنے تمام مشینر ی اور طاقت اس پر امن عوامی اجتماع (بلوچ راجی مچی ) کو روکنے کے لیے استعمال شروع کی جو تاحال جاری ہے اور بد ترین انسانی حقوق کی پامالیوں کا مر تکب ہو رہی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کا انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا۔ ریاست پاکستان نے بلوچ قومی اجتماع کو روکنے کے لیے 26 جولائی سے ہی گوادر سمیت قریب وجوار کے تمام علاقوں میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا جو تاحال جاری ہے۔ 26 جولائی سے گو اور سمیت مگر ان کے بیشتر علاقوں میں انٹر ریے مکمل طور پر بند ہے۔

انہوںنے کہا کہ آج بھی گوادر میں نہ کسی کو اندر جانے کی اجازت دی جارہی ہے اور نہ باہر آنے کی اجازت دی جارہی ہے۔

بی وائی سی رہنما نے کہاکہ 28 جولائی کے دن جب گوادر شہر کے عوام ریاستی دہشتگردی، طاقت اور خوف کے سامنے پر امن طور پر ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کر بلوچ راچی مچی کے لیے پہنچے تو ریاستی فوج نے پر امن شر کا پر اندھادھند فائرنگ کی جس سے ایک نوجوان موقع پر ہی شہید ہو گیا اور سات زخمی ہو گئے جن میں دو کی حالت اب بھی خطرے میں ہے۔ اس وحشت اور درندگی کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں بلوچ راجی مچی کے شرکاہ پر امن رہے اور راجی مچی کو دوبارہ جاری کیا گیا ہے۔

انھوں نے کہاکہ اس ریاستی دہشتگردی کے خلاف بلوچی یکجہتی کمیٹی نے بلوچ راجی مچی کو دھرنے میں تبدیل کیا اور دھرنے کے دو مطالبات رکھے۔ ایک ، بلوچستان کے تمام شاہراہوں کو کھول کر بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے والے تمام قافلے جو اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زبر دستی روکے گئے ہیں ، انہیں با حفاظت گوادر آنے کی اجازت دی جائے۔

دوسری، بلوچستان کے جن جن علاقوں سے راجی مچی کے شرکاء کوگرفتار کیا گیا ہے، انہیں رہا کیا جائے ۔ لیکن طاقت اور وحشت کے غرور میں غرق ریاست اور اس کے اداروں نے ہر طرف سے دھر ناگاہ کو گھیر کر لیا مطالبات سننے کے بجائے 29 جولائی کی صبح ریاستی فوج نے چاروں طرف سے خواتین اور بچوں پر حملہ آور ہوئے جس میں خواتین و بچوں سمیت متعد د شر کا ء زخمی ہوئے۔

ڈاکٹر صبیحہ بلوچ نے کہا کہ وحشت اور درندگی کی کھیل میں اپنے کارندوں کو کھلی چھوٹ دی گئی ۔ جی ڈی اے ہسپتال گوادر کو سیل کر دیا گیا اور وہاں کسی بھی مریض کو لے جانے والے گاڑی نظر آتی انھیں وہیں گرفتار جاتا ، راجی بچی کے لیے اسٹیج کے طور پر استعمال ہونے والے ٹرک کو جلا دیا گیا اور نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے بعد گوادر کے گھر گھر میں چھاپے مارے گئے ، لوگوں کی گاڑیاں اور قیمتی سامان کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین سمیت سینکڑوں لوگوں کو ان کے گھروں سے جبری گمشدہ کیا گیا۔ جولائی کی رات کو جس وقت دھرنا جاری تھا وہاں ریاستی خفیہ اداروں نے ڈیتھ اسکواڈ کے دو مسلح کارندوں کو دھرنے میں بھیج کر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کی ٹاسک دی تھی لیکن خوش قسمتی سے وہاں موجود عوام نے ان کی شناخت کی تھی کہ یہ ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ ہیں جس پر دھر نا منتظمین نے ان کی تلاشی لی تو ان سے پستول ، واکی ٹاکی اور شناختی کارڈ برآمد ہوئے، جس نے اپنے ویڈیوں میں اعتراف کیا کہ گوادر میں 28 جولائی کی صبح سے اس وقت 48 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر اور مجھے یہاں بلوچ راجی بچی کے لیڈر شپ کو مارنے کی ٹاسک دی گئی تھی۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوںنے کہا کہ ہمیں اب بھی ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سنگین خدشات لاحق ہیں۔ سب سے خطر ناک بات یہ ہے کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کیا گیا ہے اور پولیس و انتظامیہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری کو ظاہر نہیں کر رہی ہے جس کے زندگیوں کو متعلق ہمیں شدید خدشات لاحق ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اور سینکڑوں شرکا کو گرفتار کر کے بلوچستان حکومت د ریاست ایک سنگین جرم کا مرتکب ہو رہی ہے جس کے رد عمل اور نتائج کا انہیں ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here