عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ چند ممالک میں لاک ڈاو¿ن میں نرمی کے بعد کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کی ترجمان مارگریٹ ہیرس نے کہا کہ ‘عالمی وبا کا مرکز اس وقت وسطی، جنوبی اور شمالی امریکا کے ممالک بالخصوص امریکا ہے۔’
جنیوا میں اقوام متحدہ کی بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ ‘میں خصوصی طور پر یورپ کی بات نہیں کر رہی لیکن ہم نے چند ممالک میں لاک ڈاو¿ن اور سماجی فاصلے کے اقدامات میں نرمی کے بعد کیسز کی تعداد میں اضافہ ہوتے دیکھا ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘لوگ ایسی صورتحال میں بعض دفعہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوگیا، لیکن ایسا نہیں ہے اور تب تک نہیں ہوگا جب تک یہ وائرس دنیا کے کسی بھی حصے میں موجود ہے۔’
مارگریٹ ہیرس نے امریکا میں 10 روز قبل سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘مظاہرین کو لازمی طور پر احتیاط کرنی چاہیے۔’
انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے رواں ہفتے لوگوں کو جذباتی ہوتے دیکھا ہے، ہم نے دیکھا کہ لوگوں نے باہر جاکر اپنے جذبات کا اظہار کرنے کو اہمیت دی، ہم ان سے گزارش کرنا چاہتے ہیں انہیں اب بھی خود کا اور دوسروں کا کا تحفظ کرنے کی ضرورت ہے۔’
ان کا کہنا تھا کہ وائرس سے متاثر ہونے سے بچنے کے لیے عالمی ادارہ صحت نے لوگوں کو ایک دوسرے کے درمیان کم از کم ایک میٹر کا فاصلہ رکھنے، بار بار ہاتھ دھونے اور منہ، ناک اور آنکھوں کو نہ چھونے کا مشورہ دیا ہے۔
واضح رہے کہ یورپی سمیت دنیا کے کئی ممالک کورونا کے باعث لگائی گئی پابندیوں میں کئی ماہ بعد نرمی کردی ہے جس کے بعد معمولات زندگی کسی حد تک بحال ہوگئے ہیں۔
تاہم پابندیوں میں نرمی کے بعد عوام کی جانب سے بے احتیاطی دیکھی جارہی ہے اور لوگ سماجی فاصلے کا بھی خیال رکھتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او مسلسل کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کو لاک ڈاو¿ن اور پابندیوں میں نرمی نہ کرنے کا مشورہ دیتا آیا ہے اور اس کی جانب سے ایسی صورتحال میں وبا کے تیزی سے پھیلنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
14 مئی کو عالمی ادارہ صحت نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ہوسکتا ہے کورونا وائرس کی وبا شاید کبھی ختم نہ ہوسکے اور دنیا بھر کے لوگوں کو اس وبا کے ساتھ زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھنا پڑے گا۔
ڈبلیو ایچ او کے ہنگامی امور کے ماہر مائیک رائن نے ایک آن لائن بریفنگ میں بتایا کہ ‘اس بارے میں کوششیں جاری رکھنا ضروری ہے، یہ وائرس ہماری برادریوں میں ایک اور وبائی وائرس کی شکل اختیار کر سکتا ہے اور یہ وائرس شاید کبھی ختم نہ ہو سکے’۔
مائیک رائن نے مزید بتایا کہ ’بہت سے ممالک چاہیں گے کہ پابندیوں سے باہر آئیں لیکن ہماری سفارش ہے کسی بھی ملک میں انتباہ اعلیٰ سطح پر جاری ہونا چاہیے‘۔
انہوں نے واضح کیا کہ ‘وسیع پیمانے پر کوششیں کی جائیں تو اس وبا سے نمٹنے کے طریقوں پر دنیا کو کچھ کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے’۔