امریکا کو شام و عراق میں داعش کی واپسی کا خدشہ

0
50

بدھ کو امریکی سینٹرل کمانڈ، سینٹ کام کے ایک بیان کے مطابق،اسلامک اسٹیٹ گروپ یا داعش نے، جو آئی ایس یا آئی ایس آئی ایس کے نام سے بھی معروف ہے ، اس سال جنوری اور جون کے درمیان دونوں ملکوں میں 153 حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔

سنٹرل کمانڈ نے کہاکہ داعش کے حملوں کی یہ تعداد 2023 میں ان کے دعوئوں سے دوگنا سے زیادہ ہے۔

ادارے نے خبردار کیا کہ “حملوں میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آئی ایس آئی ایس کئی برسوں سے کم ہونے والی اپنی صلاحیت کے بعد تشکیل نو کی کوشش کر رہا ہے۔”

سینٹکام کے تازہ ترین اندازے سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ داعش کے کارندوں نے شام اور عراق کی سرحدوں سے آگے تک حملوں کی منصوبہ بندی شروع کرنےکے لئے خود کو کافی محفوظ اور پر اعتماد محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔

سینٹ کام کے کمانڈر، جنرل مائیکل ایرک کوریلا کے مطابق، “ہم اپنی کوششیں خاص طور پر داعش کے ان ارکان کو نشانہ بنانے پر مسلسل مرکوز رکھے ہوئے ہیں جو بیرونی کارروائیاں کرنا چاہتے ہیں۔”

رواں سال اپریل میں،سینٹ کام نے کہا تھا کہ شام اور عراق میں داعش کے پاس ممکنہ طور پر تقریباً 2,500 جنگجو ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد جنوری میں فراہم کیے گئے پچھلے تخمینوں سے دوگنا زیادہ ہے۔

امریکی شراکت داروں نے بھی گروپ کی ممکنہ بحالی کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

غیر منافع بخش تنظیم ’کاونٹر ایکسٹریم ازم پروجیکٹ ، سی ای پی ،جو شام میں آئی ایس کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے، اسی طرح داعش کی مزید پر تشدد اور مزید سر گرم ہونے کے بارے میں خبر دار کرتی رہی ہے۔

سی ای پی نے اپنی ماہانہ رپورٹ میں کہا، “مئی کے مقابلے جون میں تشدد کی سطح میں اضافہ ہوا ۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ “مشرقی حمص کے علاقےجوب جراح میں مقامی قبائلیوں کے خلاف کئی وحشیانہ حملے کیے گئے جس کے نتیجے میں مقامی لوگوں نے داعش کا پیچھا کیا اور اس کے دو ارکان کو ہلاک کر دیا۔”

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ “پھر بھی، آئی ایس آئی ایس کی سرگرمی زیادہ تر( شامی ) سیکیورٹی فورسز پر مرکوز رہی۔”

امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز، ایس ڈی ایف کے پولیٹیکل ونگ کے عہدیداروںکے مطابق دہشت گرد گروپ کی سرگرمیوں میں ایس ڈی ایف کے گشت والے علاقوں اور اسد حکومت کے زیر نگرانی ،دونوں علاقوں میں “نمایاں اضافہ” ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام اور عراق میں آئی ایس کے ممکنہ طور پر 3,000 سے 5,000 کے درمیان جنگجو موجود ہیں۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ شام کا وسطی صحرا “500 سے 600 جنگجوؤں کے ساتھ لاجسٹکس اور آپریشنز کا مرکز بن گیا ہے۔”

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here