بلوچستان کے ضلع خضدار میں شدید عوامی مزاحمت کے بعد پاکستانی فورسز نے مجبور ہوکر گرفتار بلوچ خواتین کو رہا کردیاہے۔
لاپتہ افراد لواحقین و سرگرم انسانی حقوق کارکنان سائرہ بلوچ ، سعدیہ بلوچ اور دیگر خواتین کو گذشتہ روز ایف سی نے 28 جولائی کو گوادر میں منعقدہ بلوچ قومی اجتماع کی تیاریوں کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔
خواتین کی گرفتاری کے بعد انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور بی وائی سی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ جبری گمشدگی کے شکار آصف اور رشید کی بہن سائرہ، سلمان کی بہن سعدیہ بلوچ اور ان کے ہمراہ دیگر خواتین کو خضدار شہر کھنڈ روڈ سے ایف سی کے کارندوں نے غیر قانونی حراست میں لیا ہے اور ان کو نامعلوم مقام پر منتقل کررہے ہیں اور عوام کے ان قریب جانے نہیں دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل جلتی پر تیل پھینکے والا کام ہے، اس ریاست کے نالائق حکمران اور اداروں کو کچھ بھی اندازہ نہیں ہے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔ اگر سائرہ، سعدیہ اور دیگر بلوچ بہنوں کو فوری طور پر رہا نہیں کیا گیا تو بلوچ یکجہتی کمیٹی بہت جلد اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریگی۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی پوسٹ کے بعدفورسز کیخلاف شدید عوامی مزاحمت شروع ہوا۔
خضدار کے عوام نے بڑی تعداد میں نکل کر کوئٹہ کراچی آئی وے کو بند کیا ۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کا کہنا تھا کہ کہ خضدار میں 4 گھنٹے سے زیر حراست سائرہ بلوچ، سادیہ بلوچ اور دیگر بلوچ خواتین کو خضدار کے عوام نے عوامی مزاحمت کے زور پر ریاستی فوج کے چنگل سے آزاد کیا۔
انہوں نے کہاکہ خضدار کے عوام نے بڑی تعداد میں اپنی بہنوں کی حفاظت کے لیے ریاستی فوج کی گاڑیوں کے سامنے مسلسل چار گھنٹے تک مزاحمت کی اور بالآخر عوامی مزاحمت کامیاب ہوئی۔
انہوں نے کہاکہ ریاستی فوج کے اس جابرانہ رویے کے خلاف خضدار کے عوام نے بڑی تعداد میں نکل کر کوئٹہ کراچی آئی وے کو بند کیا ہے اور فوج کے اس رویے کے خلاف ایکشن لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں خضدار کے عوام سے اپیل کرتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ اس احتجاج میں شامل ہوجائے اور عوامی طاقت سے جبر کے اس نظام کو شکست دیں۔