سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے سریاب و کوئٹہ میں خواتین و بچوں و متاثرین پرامن شہریوں کو ایک کالعدم تنظیم سے منسوب کرکے کارروائی کو قابل تشویش و فوری توجہ و حل طلب قرار دیا ہے۔
ان کا کہناہے کہ یہ حقیقت عیاں ہے کہ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کا وجود 70 کی دہائی سے قبل کا آشکارہ و ریاست کو للکارہ ہے جبکہ سریاب روڈ کے متاثرین و مظاہرین محض سال رفتہ کی بازگزشت ہیں ان کو کالعدم تنظیموں سے نسبت دینا زمینی حقائق سے آنکھیں چرانے کے مترادف ہے ورنہ کون نہیں جانتا گذشتہ 6 دہائیوں سے ان تنظیموں کا بلوچستان کے طول و عرض میں نام و کام و شناخت ان متاثرین و مظاہرین کی وجہ سے نہیں ہے ان کا وجود انکے والدین کی پیدائش سے بھی پہلے کا ہے۔
امان اللہ کنرانی نے کہا کہ وہ خاتون کیسی دہشت گرد ہے جو ابھی ابھی یورپ کاپرامن سفر کرکے واپس اپنے وطن و ڈیھ آئے ہیںاور سریاب میں آکر اچانک کیونکر دہشت گرد بن سکتی ہے جن کے خلاف دہشت گرد غدار کے للکار کے القابات کے ساتھ برتاؤ کرکے محب وطن نہیں وطن دشمن فیکٹری کو پروان چڑھایاجا کر ان کے روزگار کا سبب پیدا کیا جارہا ہے ورنہ ماضی کے غداروں سے معافی اور آج ایک بار پھر اپنے اپنے مقاصد کیلئے نئے غدار پیدا کرنا کون سی دانشمندی ہے ۔
انہوںنے کہا کہ حالانکہ یہ امر مسلمہ ہے دہشت گرد اور ان کے آلہ کار سڑکوں پر نہیں بلکہ پاکستان توڑنے کے ماہرین انہی ایوانوں و بڑی بڑی دیواروں کے پیچھے موجود ہیں کسی نے ریاست کے ساتھ زیادتی کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ۔کوئی پنجابی پگ کا وارث بنا تو کوئی بنگالی و بلوچ خواتین و عوام پر مظالم کا مجرم ٹھہرا کوئی پاکستان کھپے کے نعرے کے پیچھے سندھ و بلوچستان کو نوچے کا ٹھیکیدار بنا جب تک ان قوتوں سے ملک و قوم کو نجات نہیں ملتی یہ لوگ ایسے خودساختہ القابات و ماحول پیدا کرتے رہیں گے۔
ان کاکہنا تھا کہ اپنے اقتدار کو دوام بخشتے رہیں گے یہ چراغ بجھیں گے تو روشنی ھوگی ورنہ صدا بصحرا صدیوں سے جاری آہ و فغاں برطانیہ و امریکہ و یورپ میں تو سنائے دے گی مگر یہاں کان و آنکھ بند ہیں دراصل معاملات اندر سے قابل اصلاح ہیں اپنی کمزوری و خامیوں پر نظر رکھنے کی بجائے دوسروں پر ذمہ داری تھوپناپرانی روایت و کہاوت ہے جس کو ترک کرکے عوام سے براہ راست رابطہ کیا جائے کسی غیر یا اس کے آلہ کار کے سامنے نہیں اپنے عوام کے ساتھ عاجزی اختیار کرکے ان کے سامنے بھاءچارگی کا رویہ اپنانا چاہیے برادران یوسف بننے سے گریز کیا جائے۔