جرمن مصنفہ جینی ایرپن بیک نے انٹرنیشنل بکر پرائز جیت لیا

0
118

جرمن مصنفہ جینی ایرپن بیک اور ان کی کتاب کیروس کے مترجم مائیکل ہوفمین نے فکشن کے زمرے میں مشترکہ طور پر رواں برس کا انٹرنیشنل بکر پرائز جیتا ہے۔

جرمن مصنفہ ایرپن بیک کے ناول کیروس میں مشرقی جرمنی کے آخری سالوں کی ایک ہنگامہ خیز محبت کی کہانی کو پیش کیا گیا ہے۔

کتاب کے مترجم مائیکل ہوفمین کو بھی اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔

اس معروف برطانوی ایوارڈ کے لیے اس برس دنیا بھر سے مقابلے میں شامل 149 کتابیں پیش نظر تھیں، جس میں جینی کی کتاب کیروس کو منتخب کیا گیا۔

جینی کا ناول کیروس ایک 19 سالہ طالبہ اور 50 کی دہائی کے ایک شادی شدہ شخص کے درمیان ہونے والی تباہ کن محبت کی کہانی پر مبنی ہے، جن کی ملاقات سن 1986 کے آس پاس مشرقی برلن میں ایک بس میں ہوتی ہے۔

ان دونوں کرداروں کا تعلق جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کی بکھری ہوئی آئیڈیلزم اور بالآخر پورے سیاسی نظام کی تحلیل سے مربوط ہے۔

انگریزی زبان میں افسانوی زمرے کے لیے بکر پرائز موسم خزاں میں دیا جائے گا اور مصنفہ جینی اور کتاب کے مترجم ہوفمین کے درمیان پچاس ہزار برطانوی پونڈ کی انعامی رقم نصف نصف تقسیم ہو گی۔

ناول کیروس مشرقی برلن میں 1980 کی دہائی کے دوران ایک بوڑھے آدمی کے ساتھ نوجوان عورت کے تباہ کن تعلقات کی کہانی ہے۔

انعام کا انتخاب کرنے والے پانچ رکنی پینل کی سربراہ کینیڈین براڈکاسٹر ایلینور واشٹیل نے اس ناول کو ایک اذیت ناک محبت کی بھرپور ساخت اور ذاتی نیز قومی تبدیلیوں کے الجھاؤپر مبنی قرار دیا۔

انہوں نے کہا، (سابق مشرقی جرمنی) کی طرح ہی (کتاب) کا آغاز امید اور اعتماد سے ہوتا ہے، پھر بہت بری طرح سے چیزیں کھل کر سامنے آتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، محبت کرنے والوں کا خود میں جذب ہونا، ان کا تباہ کن بھنور میں اترنا، یہ سب کچھ اس عرصے کے دوران مشرقی جرمنی کی تاریخ سے اس طرح مربوط ہے کہ اکثر تاریخ کو عجیب و غریب زاویوں سے ملاتا ہے۔

واشٹیل نے کہا کہ ہوفمین کے ترجمے میں بھی ایرپن بیک کی تحریر کی فصاحت اور بلاغت پوری طرح سے برقرار ہے۔

اس موقع پر ایرپن بیک نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ یہ کتاب قارئین کے سامنے ریاستی نگرانی اور جبر کے علاوہ بھی سابق مشرقی جرمنی کے دیگر پہلوؤں کو سامنے لائے گی۔

وہ کہتی ہیں، صرف ایک چیز جو ہر کوئی جانتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کے ہاں ایک دیوار تھی، کہ وہ سٹاسی کے ساتھ سب کو دہشت زدہ کرتے تھے اور بس۔ تاہم یہی سب نہیں، بلکہ کچھ اور بھی تھا۔

سابق مشرقی جرمنی، جسے جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک کہا جاتا تھا، کی کمیونسٹ حکومت کے دوران سٹاسی نام کا ایک ریاستی سیکورٹی ادارہ تھا، جو لوگوں کی نگرانی کرنے اور ان پر جبر کے لیے بدنام تھا۔

مصنفہ نے سن 1989 میں دیوار برلن کے گرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، مجھے جو چیز دلچسپ لگتی ہے وہ یہ ہے کہ سب کچھ توڑ کر آزادی حاصل کرنا ہی وہ واحد چیز نہیں ہے جو اس طرح کی کہانی میں بیان کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے زور دے کر کہا، اس سے پہلے کے برس اور بعد کے بھی سال ہوتے ہیں۔

جینی ایرپن بیک مشرقی برلن میں پیدا ہوئی تھیں اور وہیں پرورش پائی، جو سن میں 1990میں جرمنی کے دوبارہ اتحاد تک مشرقی جرمنی کا حصہ تھا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here