شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ – کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ- قسط۔11

ایڈمن
ایڈمن
54 Min Read

شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ
قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔11
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن

”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)

(قسط11- )

تربت جلسہ:۔
اگست
14 2006 ء کویوم سیاہ کی مناسبت تربت کیچ میں منعقدہ عوامی جلسہ اورریلی کی قیادت آپ نے کی۔ کراچی سے اچانک تربت پہنچے تو عوام اور پارٹی ورکروں میں سے کسی کو یہ علم نہ تھا ماسوائے چند ایک پارٹی قائدین کے کہ آپ شہید واجہ اس یوم سیاہ کی مناسبت سے منعقدہ پروگرام کی قیادت کرینگے۔ جب یوم سیاہ کے حوالے سے منعقدہ پروگرام میں شرکت کے لیے مند،تمپ، بالیچہ کے گیردنواح بلیدہ اور مختلف علاقوں کے عوامی قافلے پارک ہوٹل تربت کے قریب پہنچے تو شہید آصف جان نے قافلے کو رکوا کر کہا تھوڑی دیر انتظار کریں۔تو آصف جان گاڑی سے اتر کر کچھ دوستوں کے ساتھ پارک ہوٹل کی جانب چلے گئے۔کچھ دیر بعد شہید آصف جان اور دوستوں کے ساتھ آپ شہید چیئرمین اور بی آر سی کراچی کے صدر وہاب بلوچ اچانک نمو دار ہوئے۔ عوام اور ورکروں نے آپ کو ایک سال بعد اپنے سامنے پاکر جذبے سے سرشار ہوکر پر زور نعروں سے آپ کا استقبال کرتے رہے،پورا علاقہ وش آتکے کے نعروں سے گونج اٹھا۔ پھریہ قافلہ آپ کی رہنمائی میں شہید کامریڈفدا چوک کی طرف روانہ ہوا۔جب آپ شہیدچیئرمین کی رہنمائی میں یہ قافلہ جلسہ گاہ پہنچ گیا تووہاں موجود بلوچ عوام جن میں ایک بڑی تعدادخواتین اور بچوں کی تھی۔آپ کو دیکھ کر ان کی خوشی کی کوئی انتہاء نہیں تھی جو کہ ان کے چہروں سے عیاں تھا۔کیونکہ مظاہرین کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ آپ ہی ان حالات میں اس ہجوم کی قیادت کرینگے۔ایسے حالات میں جہاں ریااستی فورسز آپ کے خون کا پیاسے تھے اور وہ کسی صورت آپ کو برداشت کرنے کے حق میں نہیں تھے۔
ریاستی قوتوں کے ساتھ ساتھ آپ کی موجودگی پارلیمنٹ پرستوں کے لیے بھی ناقابلِ برداشت تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ شہید غلامحمدبلوچ کی قیادت ہی کی وجہ سے بلوچ عوام نے ریاستی اداروں کی نہ صرف مخالفت جاری رکھاہوا ہے بلکہ بلوچ قومی آزادی کے لیے بلوچ سماج میں پالیمانی سیاست کے لیے بھی سیاسی موت کا سامان مہیاکررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مظاہرین حیران رہ گئے کیونکہ کسی کو یہ گمان نہیں تھا کہ آپ شہید چیئر مین اس کھٹن اور پرخطر آشوبی دور میں تربت شہر آکر عوامی جلسے اور ریلیوں کی قیادت کرکے ریاستی اداروں اور ریاستی قوتوں کی ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے مداریوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ان کی نیندیں حرام کرینگے۔
ان دنوں ڈیرہ بگٹی اور کوہستان مری میں قبضہ گیر فوج کی بربریت بڑھ چکی تھی۔عام آبادیوں کے ساتھ شہید نواب اکبر خان، شہید بالاچ مری کے کیمپوں پرفوج لگاتار حملے کررہاتھا۔ان حالات میں بلوچ سماج میں بے چینی بڑھ رہی تھی۔ انہی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپ (شہید غلام محمد بلوچ) نے کراچی سے بلوچستان کا رخ کیا تاکہ مکران کے لوگوں کو متحرک کرکے دشمن کی طاقت کو تقسیم کیا جائے۔
اگست2006ء کی یہ تقریب عوامی ریلی سے شروع ہوئی جہاں آپ کی قیادت میں ہزاروں فرزندانِ قوم نے تربت شہر میں مظاہرہ کرتے ہوئے شہید فدا احمد چوک پہ پہنچ گئے یہاں ریاستی فورسز نے پرامن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور بعد میں فائرنگ تک کی لیکن ریاستی فورسز کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ قبضہ گیر کے ظلم و بربریت کے باوجود پارٹی کارکنوں نے پروگرام جاری رکھا جہاں ریلی کے بعد جلسہ عام کا اہتمام کیا گیا۔
جلسے میں عوام کا جمِ غفیر دیکھ کر آج بھی لوگ اسے مکران کی تاریخ کے کامیاب ترین جلسوں میں شمار کرتے ہیں اور آج تک وہ لوگ جو اس جلسے میں شریک تھے اسے یاد کرتے ہیں کہ عوام نے کس جوش و ولولے سے اس پروگرام کو کامیابی سے منزل تک پہنچایا۔آپ شہید چئرمین نے بھی دورانِ پروگرام اس جلسے کو تربت کو تاریخ کا ایک یادگاری جلسہ اور ریلی کوعوامی سیلاب قرار دیا۔اس تاریخی جلسے سے خطاب کے کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ ” بلوچ قوم کی آزادی میری منزل اور میرے خوابوں کی تعبیر ہے جبکہ بلوچ نیشنل موومنٹ میرا نصب العین ہے۔ مجھے اور میری قوم کو میری منزل تک پہنچنے کے لیے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی۔ریاست اور اس کے باجگزار پارلیمانی مہرے چاہے جتنا زور لگائے ہم اس کاروانِ آزادی کو منزل تک پہنچا کے دم لینگے یا اس راہ میں دھرتی کا قرض ادا کرتے ہوئے ہوئے اپنی جانوں کو نذرانہ دینگے۔

چاہے دشمن ہزار رکاوٹیں کیوں نہ کھڑی کردیں لیکن یہ میرا ایمان ہے کہ وہ بلوچ قوم کو زیادہ دیر غلامی کی زنجیروں میں باندھ نہیں سکتااور نہ ہی جانوں کانذرانہ دینے سے یہ کارواں رک سکتا ہے۔ غلام محمد بلوچ،غلامی کی زندگی سے آزادی کی راہ
میں موت کو ترجیح دیتا چلاآرہا ہے اور آج یہی تمناء ہر بلوچ کی ہے جو اس مقدس راہ کا راہی ہے۔ ہماری یہی ثابت قدمی ایک دن بلوچ قوم کے دشمنوں کو بحرِ بلوچ میں غرق کرنے کا سبب بنے گا۔جس سے آزادی کا سورج طلوع ہوگا، ہم رہے یا نہ رہیں لیکن آزادی کی وہ کرنیں ہماری آنے والی نسلیں ضرور دیکھیں گے۔میں دشمن پہ یہ واضح کرتا ہوں کہ وہ لاکھ ستم ڈھائے لیکن وہ ہمارے ارادوں کو کمزور نہیں کرسکتا جہاں ہم آج اسکے ظلم و ستم کی وجہ سے فولاد بن چکے ہیں، غلامی کی آگ کی اس تپش کو میں نے ہوش سنبھالتے ہی محسوس کیا اور بچپن سے یہی ایک تمناء لیے پھرتا ہوں کہ قوم اور وطن کی آزادی کے لیے مجھ سے جو کچھ ہوسکے میں ثابت قدمی سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچاؤں۔مجھے کامل یقین ہے کہ میرے تمام نظریاتی دوست بلوچ قوم کو اس کی منزل پہ پہنچا کے دم لینگے چاہے میں رہوں یا نہ رہوں لیکن میرا یہ ایمان ہے کہ اس کارواں کے سپاہی اپنے فرائض کی ادائیگی میں ہر وقت، ہر لمحہ ذہنی اور فکری طور پہ تیار رہیں گے، دوستوں انقلابی عمل میں کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت عمل انقلاب سے نظریاتی اور فکری وابستگی ہے اور آج بلوچ قوم کی خوش نصیبی کہ آج قوم کی ایک بڑی تعداد نظریاتی اور فکری حوالے سے مسلح ہے اور اس راہ پہ گامزن نظریاتی اور فکری کارکنوں کے قدم دنیا کی کوئی طاقت متزلزل نہیں کرسکتا۔”
جلسے کے بعدآ ٓپ چیئرمین نے گلرنگ ہوٹل تربت میں پریس کانفرنس کیا۔ پریس کانفرنس میں آپ نے بلوچستان کے موجودہ حالات اور پاکستانی جبر کو اجاگر کیا اور اس دوران صحافیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ وہ اصولِ صحافت کے پیشِ نظرحقائق دنیا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ابھی پریس کانفرنس جاری تھا کہ ریاستی فورسزنے آپ کے اور دیگر کارکنوں کی گرفتاری کے لیے گل رنگ ہوٹل کو محاصرے میں لے لیا۔ لیکن پارٹی کارکنوں کی ہمت اور ہجوم نے ریاستی کارندوں کو پیچھے دھکیلنے پہ مجبور کردیا۔
اس دوران حالات انتہائی سنگین ہوگئے تھے۔دوپہر بارہ بجے سے رات نو(9) بجے تک گل رنگ ہوٹل سمیت پورا علاقہ فورسز کے نرغے میں تھا۔لیکن عوامی طاقت نے فورسز کے حوصلے پست کردیے حالانکہ اس دووران ریاستی کارندے جن میں نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر مالک سرِ فہرست ہیں نے بھی آپ سے فون پہ بات کرنا چاہا لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ مجھے دشمنوں کے کاسہ لیس مہروں سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی میری گرفتاری سے یہ تحریک ختم ہوسکتی ہے بلکہ یہ میرا ایمان ہے کہ میری گرفتاری کے بعد اس جدوجہد میں مزید تیزی آئیگی۔
قبضہ گیر کا تربت محاصرے کی خبر پورے علاقے میں پہنچ چکا جس کے ردِعمل میں لوگ بڑی تعداد میں گلرنگ ہوٹل کا رخ کرنے لگے اس عوامی سیلاب کو دیکھتے ہوئے ریاستی فورسز کو پسپا ہونا پڑااور آپ رات نو بجے اپنے ساتھیوں سمیت ہوٹل سے باہر نکل آئے۔

قبضہ گیر ریاست کا سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنا:۔
تربت میں منعقدہونے والے کامیاب پروگرام کے بعد قبضہ گیر ریاست کے ادارے حرکت میں آگئے اور انہوں نے پارٹی کارکنوں کے ساتھ دیگر آزادی پسندوں کے خلاف تربت پولیس تھانے میں مقدمات درج کیے۔ان مقدمات میں آپ چئیرمین، بانک کریمہ بلوچ، پیرجان بلوچ اور بانک شاری بلوچ سمیت بہت سارے دیگر مرد و خواتین کارکنوں کے نام شامل تھے۔ پاکستانی فورسز کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ان افراد نے ریاست توڑنے کی سازش کرنے کے ساتھ ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو متحرک کرنے کی کوشش کی ہیں۔ لیکن آپ اور کے ساتھیوں نے ان مقدمات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بلوچ قوم کو منظم کرنے کے لیے پارٹی پروگرام میں مزید تیزی لایا۔
اس دوران آپ دوبارہ کراچی چلے گئے۔ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت اور سرداروں کا جرگہ:۔
اگست کے مہینے میں ڈیرہ بگٹی اور اس کے مضافات میں شدید لڑائی شروع ہوئی۔نواب اکبرخان شہید ڈیرہ بگٹی کے پہاڑوں میں مورچہ زن ہوکے دشمن کا مقابلہ کررہے تھے۔24 اگست2006ء کو دشمن نواب اکبرخان بگٹی شہید کے کیمپ کو مکمل محاصرے میں لے چکا تھا جہاں تین دن تک گمسان کی لڑائی ہوئی اور بلآخر26اگست2006ء کے دن نواب اکبرخان دشمن سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوگئے۔ نواب صاحب کی شہادت کے بعد پورے بلوچستان میں احتجاج کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔اس دوران کئی علاقوں میں جلاؤ گھیراؤ کے ساتھ شدید جھڑپیں بھی ہوئی۔ایسا لگ رہا تھا کہ نواب صاحب کی شہادت نے پورے بلوچ قوم میں آزادی کی روح پھونک دی اور اب چند ہی دن میں بلوچ قوم اپنی منزل پانے میں کامیاب ہوگا۔ ریاستی اداروں نے جب حالات کارخ دیکھا تو انہوں نے بلوچ قوم پہ جمود طاری کرنے کے لیے پہلے غائبانہ نماز جنازہ اور از بعد وفاق پرست پارٹیوں کے رہبروں کو پرامن احتجاجی سلسلے جاری رکھنے کو کہا۔
اس دور کے حالات کو دیکھ کر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ریاست اپنی اس پالیسی میں پوری طرح کامیاب ہوا جہاں اس کے کاسہ لیس وہ چاہے مالک اور حئی کی شکل میں ہوں یا اختر، لشکری رئیسانی اور ثناء اللہ زہری کی شکل میں پوری طرح متحرک ہوچکے تھے جن سے سادہ لوح بلوچ عوام یہ سمجھ بیٹھا کہ اب یہ قوم کے امین بن چکے ہیں۔لیکن آزادی پسند بلوچ رہنماؤں کو اس بات کا ادراک تھا کہ یہ سوداگر ریاستی کھیل کا حصہ ہیں اور ان کا مقصد فقط بلوچ قوم کی سوچ کو تقسیم کرنا اور ریاستی قبضے کو طول دینا ہے۔
جب نواب اکبربگٹی کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تو آپ کراچی میں تھے اور بہتر انداز سے قوم کی رہنمائی کرتے رہے۔لیکن جلد ہی آپ کوئٹہ پہنچ گئے۔جب آپ نے حالات کا جائزہ لیا تو آپ کو یہ یقین ہوگیا کہ ریاست قوم کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ان نام نہاد قوم پرستوں کو آگے لارہا ہے۔آپ نے حتی الوسع کوشش کی لیکن یہ مٹی کے سوداگر راہِ راست پہ آنے والے نہیں تھے۔ آپ جب قوم کو متحرک کرنے کے لیے مزید پروگرام دیتے رہے تو ریاست پہ ایک اور خوف طاری ہوگیا اسی لیے انہوں نے ایک اور چال چلی جہاں بلوچ قومی مسئلے کو حل کرنے کے نام پہ قلات میں سلیمان داؤد کی سربرائی میں ایک جرگہ کا اہتمام کیا گیا۔جس میں بلوچ قبائلی سرداروں کے ساتھ سیاسی رہنماؤں نے بھی شرکت کی۔
جب نواب اکبر خاں بگٹی کی شہادت کے بعد قلات میں بلوچ قومی سوال اور پاکستانی جبری قبضہ کیخلاف یہ نام نہاد جرگہ منعقد ہوا تو آپ چیئرمین بلوچ قومی آزادی کے سنگل پوائنٹ ایجنڈا (بلوچستان کی آزادی)پہ اس پروگرام میں شامل ہوئے اور آزادی کاایجنڈا پیش کیااور بلوچستان پر پاکستان کے جبری قبضہ کے مقدمہ کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے پر زور دیا۔اس کے بعد قومی آزادی اور قبضے کے خلاف بلوچ مسلے کواقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔جس کا سربراہ سلیمان داؤد خان کو مقرر کیا گیا۔جس نے جرگے کے بعدگوادر کا دورہ کرکے پاکستان کے نام نہاد ترقی کے منصوبوں پہ پاکستانی صدر مشرف کی حمایت کا اعلان کیااس کے ساتھ دیگر سردار،نواب بھی جو اس کمیٹی کے رکن تھے انہوں نے بھی جرگے کے فیصلے کے بھر خلاف قبضہ گیرپاکستانی پارلیمنٹ کا حصہ بن کر پاکستان کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھا لیا۔مراعاتِ یافتہ اور وطن فروش سردار اور نوابوں کی یہ ذہنیت دیکھ کر آپ نے قومی آزادی کے لیے بلوچ عوام کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔
سرداروں اور نوابوں کی وطن فروشی آپ کے لیے نئی بات نہیں تھی اس کا اندیشہ تو آپ کو پہلے بھی تھا۔آپ یہ جانتے تھے کہ ان سرداروں میں نواب خیربخش مری اور اکبر خان بگٹی کے علاوہ اور کوئی بھروسے کے قابل نہیں۔آپ یہ جانتے تھے کہ انہوں نے نواب اکبر خان سے بھی یہی کہا تھا کہ اگر ریاست ڈیرہ بگٹی میں ایک گولی چلائے گی تو جہالاوان میں دس گولیاں چلیں گی لیکن وقت آنے پہ ان کاحقیقی چہرہ سب نے دیکھ لیا جہاں ڈیرہ بگٹی کو قبضہ گیر نے بلوچ قوم کے لیے جہنم بناڈالالیکن جہالاوان میں ان ہستیوں پہ سکوت طاری تھا۔نواب اکبر خان کی شہادت کے بات آپ کا یہ یقین مزید کامل ہوچکا تھاکہ سنڈیمن نظام کے یہ سردارہر اس بلوچ کو جو بلوچستان اور بلوچ قوم کی آزادی کی جدوجہد کرتا ہو اسے راہ سے ہٹانے کے لیے پوری زور آزمائی کریں گے۔

پہلی اغواء نماء گرفتاری:۔
قلات جرگے کے کچھ عرصے بعد3 دسمبر2006ء کو بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے کراچی کے علاقے چاکیواڑہ چوک میں عوامی جلسے کا انعقاد کیا گیا۔اس جلسے میں سلیمان داؤد خان اور سردار ثناء اللہ زہری نے بھی شرکت کرنا تھا لیکن بارش کی وجہ سے چاکیواڑہ میں جلسے کا انعقاد ممکن نہیں ہواجس کی اطلاع آپ نے سلیمان داؤد خان اور ثناء اللہ زہری کو دی۔لیکن انہوں نے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انہیں حیدری فٹبال کلب لیاری آنے کو کہا۔
آپ چیئرمین کلری لیاری کے حیدری بلوچ فٹبال کلب میں چند دوستوں کے ساتھ آغا سلیمان داؤد اور سردار ثناء اللہ زہری کے انتظار میں بیٹھے رہے یہ وطن فروش تو نہ پہنچ پائے مگر ان کی جگہ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے30سے40کے قریب گاڑیاں پہنچ گئے اور آتے ہی انہوں نے حیدری فٹبال کلب کو گھیرے میں لے کر آپ شہید چیئرمین اور بی آرپی کے ڈپٹی سیکرٹری شہید شیر محمد بلوچ کو جبری طور پہ لاپتہ کیا۔یہ سب کچھ اتنا اچانک ہوا کہ آپ لوگوں کے پاس نکلنے کا کو ئی راستہ نہیں بچا اور نہ ہی کارکنوں کو موقع ملا کہ وہ آپ لوگوں کا دفاع کرتے۔

خاندان اور بلوچ قوم کی جانب سے احتجاج:۔
قابض ریاستی فورسز کے ہاتھوں آپ کی جبری گمشدگی کے ردِ عمل میں کراچی سمیت پورے بلوچستان میں احتجاجی مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا جو آپ کی واپسی تک جاری رہا۔اس احتجاجی سلسلے میں بلوچ عوام کے ساتھ ساتھ آپ کی بوڑھی والدہ صاحبہ،زوجہ اور خاندان کے دیگر افرادشریک رہے۔اس کیس کا مقدمہ آپ شہید کے خاندان والے سندھ ہائی کورٹ تک لے کے گئے۔پارٹی کارکنوں اور خاندان کے افراد ریاستی ہٹ دھرمی کے باوجود بدستور احتجاج جاری رکھے ہوئے تھے۔
اس دوران بلوچ تحریکِ آزادی میں ایک بڑی تبدیلی یہ رونماء ہوئی کہ خواتین ان مظاہروں میں کافی متحرک رہیں جہاں انہوں نے پہلے کراچی اور بعد میں اسلام آباد اورکوئٹہ پریس کلب میں احتجاجی کیمپ لگائے۔ان احتجاجی کیمپوں میں شہید غلام محمد بلوچ کے خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔کراچی بھوک ہڑتالی کیمپ کے پچیسویں دن آپ شہید کی والدہ محترمہ بی بی حیرانساء نے صحافیوں اور اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ” میں ایک ما ں ہوتے ہوئے بھی اپنے بیٹے چیئرمین غلام محمد بلوچ کی قبضہ گیر ریاستی اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں اغوا نما ء گرفتاری اور لاپتہ کرنے سے ذرہ بھر پریشان نہیں ہوں بلکہ میں آج فخرمحسوس کررہی ہوں کہ میرا بیٹا غلامحمد بلوچ مٹی کا فرض ادا کرنے نکلا ہے، غلام محمد بلوچ کے ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غلام محمد بلوچ دھرتی کا صالح اور فرض شناس سپوت ہے اور ایسے بیٹوں کی گمشدگی وہ بھی قوم اور وطن کے لیے ہو تو باعث فخر ہے،غلام محمد بلوچ کی اس قربانی کی وجہ سے آج اس کی ماں کا سر فخرسے بلند ہوگیا ہے۔میں یہ واضح کرتی ہوں کہ میرے بیٹے غلام محمد کی یہ پہلی ریاستی گرفتاری نہیں اس سے پہلے بھی وہ کئی بار سرزمین اور اس قوم کے لیے گرفتار ہوچکے اورقابض ریاستی اہلکاروں کے عقوبت خانوں میں تشدد اور ظلم وجبرکاجوانمردی سے مقابل کرچکا ہے۔تمام تر ریاستی جبر کے باوجود میرا بیٹا جو قوم اور وطن کے عشق میں مبتلاء ہے وہ ثابت قدم رہا اور مجھے یقین ہے کہ وہ کبھی جھک نہیں سکتا اور نہ ہی وہ بھک سکتا ہے کیونکہ وہ عاشقِ وطن ہے اور ایسے عاشقوں کا حوصلہ کوئی پست نہیں کرسکتا۔میرا بیٹا جو بچپن سے اس ارمان کے ساتھ جی رہا ہے کہ وہ ایک دن آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوتے دیکھے گا یا اسی راہ میں اپنی جان قربان کریگا۔ابھی وہ چھ سال کا تھا جب وہ آنکھوں میں خواب ِآزادی لیے پھرتا تھا اب ایسا بیٹا کیسے اور کیونکر اپنی راہ سے ہٹ سکتا ہے جو کھیلنے کھودنے کی عمر سے ہی آزادی کو اپنا مقصد بنایا ہو۔میں سمجھتی ہوں کہ میں دنیا کی خوش نصیب ماں ہوں جسے غلام محمد جیسا بیٹا نصیب ہوا۔پھر کیوں اس ا نقلابی بیٹے کا قبضہ گیر ریاست کے ہاتھوں گرفتاری اور لاپتہ کرنے پر میری آنکھیں نم ہوسکتی ہیں؟بلکہ آج غلام محمد بلوچ کے اس عمل نے مجھے مزید ہمت دی ہے جس کی وجہ سے میں اس بھوک ہڑتالی کیمپ کی رہنمائی کررہی ہوں۔قابض ریاست سے تو مجھے کوئی امید نہیں لیکن آپ میڈیا والوں کی توسط سے آج دنیا کے مہذب اقوام،اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف سے ایک آزادی پسند بیٹے کی ماں کی حیثیت سے یہ کہنا چاہونگی کہ پاکستانی قبضہ اور اس غیرفطری ریاست کی جانب سے بلوچ فرزندوں پر ڈھائے گئے مظالم،بلوچ قومی سوال اوربلوچ فرزندوں کی اغواہ نما گرفتاریوں کے سلسلے میں وہ پاکستان کے خلاف عملی اقدامات کرکے اپنے فرائض ادا کریں جو مہذب اقوام کا شیوہ رہا ہے نہیں تو ظلم مزید بڑھے گا اور اس کی ذمہ دارآپ اور عالمی دنیا پہ عائد ہوگی۔”
شہید غلام محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کے باوجود پارٹی پروگراموں کا تسلسل برقرار رہا۔ بلوچ تاریخ میں شاید کبھی ایسا ہو کہ پارٹی قائد کی موجودگی کے بغیر عمل متاثر نہ ہوا ہو۔ چونکہ آپ شہید نے بلوچ سیاسی عمل کو جدید تقاضوں کے سانچے میں ڈالا تھا جسے آپ بلوچ قوم کی آزادی کے لیے ضروری عمل خیال کرتے تھے اسی لیے آپ نے شخصیت کی بجائے اداروں کو پروان چڑھایا۔یہی وجہ تھی کہ جب آپ ریاستی ادااروں کے ہاتھوں لاپتہ ہوئے تو پارٹی نے معمول کے پروگراموں کے ساتھ ساتھ عوامی احتجاج کا ایسا سلسلہ شروع کیا جس کی نظیر بلوچ تاریخ میں نہیں ملتی۔ریاست نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد آپ کو راستے سے ہٹانے میں اپنی عافیت جانی اور یہ سوچا کہ آپ کو
لاپتہ کرنے سے بلوچ قومی تحریک ختم یا انتہائی کمزور پڑسکتی ہے لیکن بلوچ نیشنل موومنٹ کو آپ(شہید غلام محمدبلوچ) نے جن خطوط پہ استوار کیا تھا اس نے یہ ثابت کردیا کہ بلوچ سیاسی نظام میں جدت ہی بلوچ قوم کی بقاء کا ضامن ہوسکتا ہے۔اس حوالے سے آپ اکثر کہا کرتے تھے کہ” ہم ایک ایسے شاندار مستقبل کی جانب جارہے ہیں، جسے دیکھنے کے لیے ممکن ہے کہ ہم نہ رہیں لیکن آزادی کا سورج ہماری آنے والی نسلیں ضرور دیکھیں گے ” یہ یقیناً اس بات کی غماز ہے کہ بلوچ اب ادارتی سیاست کی جانب مائل ہوچکا ہے جس کی وجہ سے آزادی کا یہ سفر اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔حالانکہ اس سے قبل کی بلوچ سیاسی تاریخ ہمیں شخصیات کے گرد گھومتی نظرآتی ہے۔ہاں البتہ یوسف عزیز مگسی اور میر عبدالعزیز کرد نے بیسوی صدی کے دوسرے عشرے میں ایک کوشش ضرور کی لیکن ان کی وہ کوشش بھی ناکامی سے دوچار ہوا ان کے بعد شہید فدا احمد بلوچ نے بلوچ قوم کو آزادی کا تحفہ دینے کے لیے پارٹی سیاست کو فروغ دینے کی کوشش کی لیکن انہیں بھی آستین کے سانپوں نے دشمن کے ساتھ ملکر شہید کردیاجبکہ موجودہ بلوچ تحریک میں آپ شہید غلام محمد کے جبری طور پر لاپتہ ہونے یا شہادت کے بعد کے واقعات کو دیکھیں تو ایسا کبھی محسوس ہی نہیں ہوتا کہ پارٹی کمزور پڑچکا ہے اور یہ سب آپ شہید کی اس نئی سوچ کی مرہونِ منت ہے جس میں آپ نے اداروں کو پروان چڑھایا۔
ان احتجاجی سلسلوں کو اگر دیکھا جائے جن میں آپ کے خاندان کے افراد پیش پیش تھے اس سے اس امر کو تقویت ملتی ہے کہ انقلابی عمل کے لیے پہلا انتخاب اپنی ذات میں تبدیلی اور اس کے بعد اپنے گھر کے افراد کو اس راہ پہ لانا۔اس عمل میں کامیاب ہونے والے خوش نصیب انقلابیوں کی فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور آپ انہی عظیم ہستیوں سے ایک ہے۔
آپ چیئرمین کی غوا نماء گرفتاری کے باوجود پارٹی کے مخلص ورکروں بلوچ عوام قوم کے فرزندوں مردوخواتین، بزرگ اور جوانوں کے ساتھ آپ کے خاندان کے افراد نے بلوچ قومی تحریک اور آپ کے نظریہ کا پرچار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ آپ کی غیر موجودگی میں جد و جہد میں مزید تیزی لاکر یہ ثابت کردیاکہ جس نظریے اور سیاسی نظام کو شہید غلام محمد بلوچ نے پروان چڑھایا ہے اس پہ کبھی جمود طاری نہیں ہوسکتا۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پارٹی سیاست کے حوالے سے آپ بلوچ قومی تاریخ میں پہلی شخصیت تھے جنہوں اداروں کا ایسامضبوط نظام قائم کیا جسے کوئی طاقت اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانہیں سکتا۔ یہ عمل اس وجہ سے بھی ممکن ہوا کہ آپ ایک مکمل سیاسی عمل کے ذریعے اس مقام تک پہنچے تھے۔ آپ کی سیاسی تربیت کا یہ عمل بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے شروع ہوتا ہے۔طلباء سیاست کے ساتھ ساتھ آپ کا بلوچ قوم پرستی کی سیاست کو اس نہج تک پہنچانے میں حالات کا عمل دخل ضرور شامل ہے لیکن شہید فدا احمد بلوچ کی تربیت کا بھی آپ کی شخصیت کو نکھار نے میں بڑا اہم کردار رہا ہے۔
کراچی میں ہونے والے احتجاج کے بعد شہید کی زوجہ بانک سلمیٰ بلوچ،بچے ماہ جان اور بہاول جان، بھتیجا شہید آصف بلوچ اور بھتیجی بانک حیریہ بلوچ اور خاندان کے دیگر افرادنے آپ (شہیدغلام محمدبلوچ) کی بازیابی کے لیے اسلام آباد کی یاترا کی۔پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں چند دن جدوجہد کرنے کے بعد خاندان کے افراد ریاستی جمہوری اداروں کے عملے کے رویوں سے مایوس ہوکر
واپس بلوچستان آئے جہاں 30 جولائی2007ء کوکوئٹہ (شال) میں بلوچ خواتیں پینل کی جانب سے جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچ اسیران کی بازیابی کے لیے شروع کیے گئے احتجاج میں ان کے ہمراہ بنیں۔
بلوچ خواتین کو متحرک کرنے میں شہید سہراب مری اور شہید ایم۔کریم بلوچ کلیدی کردارادا کر رہے تھے یہ انہی دونوں شہیدوں کی وجہ سے ممکن ہوا جہاں بلوچ خواتین سیاسی عمل میں کافی متحرک ہوگئیں۔ یہ احتجاج کوئٹہ پریس کلب کے باہر بلوچ خواتین پینل کے صدر بانک شکر بی بی کی قیادت میں شروع کیا گیا تھا۔اس کیمپ میں بانک شکر بی بی کے ساتھ بانک کریمہ بلوچ اور بہت سارے دیگر خواتین جن میں اکثریت کا تعلق نیو کاہان کوئٹہ سے تھا شریک تھیں۔انہی دنوں بلوچ آزادی پسند رہنماء استاد واحد کمبر بلوچ بھی ریاستی جبر کا شکار ہوگئے تھے جہاں ان کی بازیابی کے بانک کریمہ بلوچ کے علاوہ خاندان کے دیگر افراد بھی موجود تھے۔
دورانِ احتجاج ایک دن صحافیوں سے شہید غلام محمد بلوچ کی بھتیجی بانک حیریہ بلوچ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ” آج بلوچ اسیران کی بازیابی ہماری اولین ترجیحات میں سے ہے لیکن ہم فقط جبری طور پر لاپتہ کیے گئے بلوچوں کے لیے سراپاء احتجاج نہیں بلکہ یہاں بیٹھنے کا مقصد دنیا اور بلوچ قوم کو یہ پیغام دینا ہے کہ بلوچ جہدِ آزادی میں پوری قوم متحرک ہے۔دشمن چاہے اس حوالے سے جبر کی کتنی ہی داستانیں کیوں نہ رقم کردیں، مگر وہ ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتی۔اس احتجاجی کیمپ کی اولین ترجیح یعنی بلوچ اسیران کی بازیابی کے حوالے سے میں آپ صحافی حضرات کی توسط سے اس غیر فطری ریاست کے حکمرانوں تک یہ بات پہنچا چاہتی ہوں کہ اگر چیئرمین غلام محمد بلوچ سمیت تمام بلوچ اسیرفرزندوں کو بازیاب نہیں کیا گیا تو20 اگست 2007ء کو میں (حیریہ بلوچ)اپنے تمام بلوچ بھائیوں بشمول چیئرمین غلام محمد بلوچ کی بازیابی تک یہ علامتی بھوک ہڑتال چھوڑ کر، تا دام مرگ بھوک ہڑتال کرونگی۔”
بانک حیریہ بلوچ کی بھوک ہڑتا ل کا یہ اعلان سن کر شہید مجید جان بلوچ کی والدہ نے بانک حیریہ بلوچ کو پیغام بھیجا کہ بیٹی ریاست ویسے ہی ہمارے خون کا پیاسا ہے،اس پہ ہمارے مرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں ایک ماں کی حیثیت سے اپیل کرتی ہوں بیٹی اپنا تادم مرگ بھوک ہرتال کا فیصلہ واپس لے لیں کیونکہ اس طرح کے اقدام سے فائدے کے بجائے ہمیں نقصان اٹھانا پڑیگا۔اس عظیم ماں کے حکم کے سامنے بانک حیریہ بلوچ کو سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔
احتجاج کا سلسلہ جاری رہا لیکن بلوچ خواتین پینل کے شرکاء نے20 اگست2007ء کو22 روزہ علامتی بھوک ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا۔ کانفرنس کے دوران انہوں نے کہا کہ آپ چیئرمین اور دیگر اسیران کی عدم بازیابی کی صورت میں آئندہ کالائحہ عمل جلد طے کیا جائے گا۔ اس علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ کے آخری دنوں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل)اور نیشنل پارٹی کے نام نہاد قائدین جن میں حبیب جالب اور ڈاکٹر حئی نے بلوچ ماں،بہنوں کی زخموں پہ نمک چھڑکنے کیمپ میں نمودار ہوئے۔ لیکن انہیں یہ گمان نہیں تھا کہ بلوچ خواتین انہیں حواس باختہ کرینگے۔ ان کے آتے ہی بلوچ خواتین نے ان پہ بلوچ قومی سوال اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اس موقف کا جہاں یہ دونوں حضرات راگ الاپتے نہیں تھکتے اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے اسی نعرے قومی حق خودرادیت بشمول قومی آزادی کے حوالے سے سوالات کا بوجھاڑ کردیا اورانہیں بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا اس آئین کی یاد دہانی کرائی جس کی ترمیم میں ان دونوں وطن فروشوں کا ہاتھ تھا۔اس دوران حبیب جالب اور ڈاکٹر کو اپنے حواس پر اس قدر کنٹرول بھی نہیں رہا کہ ڈاکٹر حئی شہید غلام محمد بلوچ کی تصویر جو کیمپ میں آویزاں تھا پہچانتے اور جالب صاحب تو بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے حق خودرادیت کے نعرے سے ہی مکر گیا۔جس پہ انہیں بلوچ خواتین نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور ان پہ سوالوں کے تیر برساتے رہے لیکن ان کے پاس کسی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں تھا۔اسی دوران بانک حیریہ بلوچ نے ڈاکٹر حئی سے مخاطب ہوکر کہا کہ ”اب آپ لوگ نہ غلام محمد کو پہچانتے ہو نہ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا مقدس نعرہ قومی حق خودرادیت یاد آرہاہے کیونکہ آپ جالب اور حئی قوم کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہو جس کے لیے آپ لوگ ریاستی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہو۔ آپ لوگ تو بلوچ قوم بلخصوص نوجوانوں کو اپنا ووٹ بینک تصور کرتے ہو اسی لیے آج تک آپ لوگ بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو اپنے مذموم مقاصد (پارلیمنٹ) کے لیے استعمال کرتے آرہے ہو۔لیکن اب بلوچ قوم آپ لوگوں کا راستہ روکے گی بہت ہوگیا جتنا آپ لوگوں نے قوم کا خون بہانا تھا بہا چکے، جتنی منافقت کرنی تھی وہ کرلیا،جتنا اس دھرتی ماں اور اس کے فرزندوں کو لوٹنا تھا لوٹ چکے اب مزید یہ سب برداشت نہیں ہوگا۔اب آپ جیسے ضمیر فروشوں کی اس قوم کو ضرورت نہیں۔”
اگلے دن بلوچ خواتین کی جرات کی یہ داستان اخبارات کی زینت بن گئیں۔اس حوالے شہید غلام محمد بلوچ نے رہائی کے بعد مجھ سے کہا کہ بلوچ خواتین اور خاص کر حیریہ کی باتوں پہ ریاستی ادارے سیخ پاء ہوگئے انہوں نے کہا کہ غلام محمد تمھاری بھتیجی کی جرات کی تو داد دینی پڑیگی لیکن یہ بہادری اب کسی کے کام نہیں آئے گی کیونکہ ہم کسی ایسے بلوچ کو جس کی زبان اس قدر تیز ہو برداشت نہیں کرسکتے۔

شہید غلام محمد بلوچ منظر عام پہ:۔
20 اگست2007ء شام6بجے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ تو اختتام پذیر ہوالیکن مظاہرے، ہڑتال اور جلسے جلوسوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جہاں بلوچستان کے مختلف شہروں کے ساتھ کراچی میں بلوچ عوام آپ چیئرمین کی رہائی تک سراپا احتجاج بنے رہے اور آخر کار 20ستمبر2007ئئ کو آپ شہید چیئرمین اور شہید شیر محمد بلوچ کو ریاستی حفیہ اداروں کے اہلکاروں نے سبی بلوچستان سے بازیاب کرنے کا ڈرامہ رچاتے ہوئے پولیس کے حوالے کردیا۔
23ستمبر کو پولیس اور حفیہ اداروں کے اہلکاروں کی نگرانی میں آپ شہید چیئر مین اور شہید شیر محمد کو خضدار سے کیچ تربت پولیس تھانے لایا گیا۔جب مجھے آپ شہید چیئرمین اور شہید شیر محمد بلوچ کا تربت تھانے میں پہنچنے کی خبر ملی تو میں فوراً شہید رزاق گل بلوچ کے ہمراہ تھانے پہنچ گیا۔آپ دونوں کوتھانے میں دیکھا پہلے پہل تو میں پہچان نہ سکا کیونکہ آپ دونوں کی صحت اس قدر گر چکی تھی کہ پہچاننا مشکل تھا۔آخر کار شہید نے مجھے کہا کہ کہاں کھو گئے ہو تو میرے حواس میرے قابو میں آگئے میں نے کہا کہ معاف کرنا کہ آپ لوگوں کو اس حالت میں پہچاننا مشکل ہورہا تھاکیونکہ آپ دونوں جسمانی لحاظ سے بہت کمزور ہوگئے ہو۔
ریاست کے زرخرید غلام خاص کر نیشنل پارٹی کے قائدین چیئرمین غلام محمد بلوچ کے ریاستی اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے بعد یہ پروپیگنڈہ کرتے رہے کہ غلام محمد بلوچ نہ ہی لاپتہ ہوئے اور نہ ہی گرفتار بلکہ وہ اسلام آباد میں ہے اور وہاں ریاست کے ساتھ مل کر بلوچ قوم کا سودا کررہا ہے اور یہاں بلوچ نیشنل موومنٹ کے چند کارکنان جو غلام محمد بلوچ کے ساتھ ملے ہوئے ہیں وہ غلام محمدبلوچ کی شخصیت کا اثر لوگوں پہ ڈالنے کے لیے ریاستی اغواء اور لاپتہ ہونے کا ڈرامہ رچارہے ہیں ان وفاق پرستوں کا مزید یہ کہنا تھا کہ غلام محمد اسلام آباد میں اصغر رند اور میر محمدعلی رند کے ساتھ ان کی اسلام میں موجود رہائش گاہ میں بیٹھے بلوچستان کے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کررہا ہے۔جب آپ شہیدغلام محمد بلوچ اور شہید شیر محمد بلوچ بازیاب ہوکر تربت تھانے پولیس کے حوالے کیے گئے تو ان عناصر نے اپنے پروپیگنڈے کو ایک نیا رنگ دے کر یہ کہنا شروع کیا کہ غلام محمد بلوچ کی رہائی ریاست کے ساتھ ڈیل کا نتیجہ ہے اور انہوں ریاست کو یہ باور کرایا ہے کہ اب وہ بلوچ تحریک سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلے گا۔ مگر بلوچ قوم وفاق پرست عناصر کی حقیقت جان چکا تھا اسی لیے ان کے منفی پروپیگنڈے اور الزامات کا بلوچ قوم پہ کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ ان کی ان حرکتوں کی وجہ سے بلوچ قوم میں ان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔کیونکہ بلوچ قوم کو اب یہ پختہ یقین ہوچکاتھا کہ غلام محمد بلوچ نہ جھک سکتا ہے اور نہ ہی وہ بھک سکتا ہے بلکہ ریاستی عقوبت خانے سے نکل کر وہ مزید جانفشانی سے بلوچ راج کی خدمت کرتا رہیگا۔
آپ چیئرمین تربت تھانے میں تھے تو سیاسی شخصیات اور عوام بڑی تعداد میں آپ اور شیرمحمدبلوچ سے ملنے آیا کرتے تھے۔ میری موجودگی میں ایک دن گوادر سے کچھ دوست آپ سے ملنے آئے تو ان میں نیشنل پارٹی کے چند کارکنا ن بھی تھے۔نیشنل پارٹی کے ان ممبران میں سے کسی نے پوچھا کہ چیئرمین کیا مولابخش یا دیگر لیڈر آپ سے ملنے آئے ہیں؟ آپ نے مسکراتے جواب دیا کہ نہیں ابھی تک ان میں سے کسی نے آنے کی تکلیف نہیں کی ہے۔ نیشنل پارٹی کے اس کارکن نے دوبارہ چیئرمین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مولا بخش اور ہمارے دیگر قائدین یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کی خفیہ اداروں سے بازیابی ایک سیاسی ڈیل کا نتیجہ ہے جس میں آپ نے انہیں یقین دلایا ہے کہ آپ بلوچ تحریک سے دستبردار ہونگے یا ہوچکے ہیں۔ کیا یہ حقیقت ہے؟نیشنل پارٹی کے اس کارکن کی باتیں سننے کے بعد آپ نے زور دار قہقہ لگانے کے بعد کہا کہ ” غلام محمد بلوچ کا ضمیر زندہ ہے اور جیتے جی اس ضمیر کا سودا نہیں کرسکتا۔میں ان ضمیر فروشوں میں سے نہیں ہوں جو چند مراعات کے عیوض پوری بلوچ قوم اور اس دھرتی کو اغیار کے رحم و کرم پہ چھوڑ کر اپنی قیمت کی وصول کررہے ہیں۔میں غلام محمد بلوچ یہ نہیں جانتا کہ دشمن کب تک مجھے زندہ رکھے گا لیکن جب تک میں زندہ رہونگا بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد ہی میرا مقصد ہوگا۔البتہ یہ جانکاری مجھے بھی ہے کہ دشمن میری اس جدوجہدکے عمل کو برداشت نہیں کرسکتا اور ممکن ہے کہ جلد ہی وہ مجھے ختم کردے۔لیکن آج یہ تحریک اس نہج پہ پہنچ چکی ہے جہاں غلام محمد بلوچ کی شہادت سے اس پہ کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس کا نظارہ دنیا دیکھ چکی ہے جب میں ریاستی اداروں کے ہاتھوں لاپتہ کردیا جاتا ہوں بلکہ آج تک ان کی قید میں ہوں مگر بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ تحریک کی کارکردگی پہ کوئی منفی اثر نہیں پڑا جبکہ اس کے برعکس میرا اور شیر محمد بلوچ کی اغواء نما گرفتاری کے بعد تحریک میں مزید شدت آگئی اس بات کا ادراک تمہیں بھی ہوگا۔ تحریک میں آنے والی اس شدت سے گھبرا کر پاکستان کے یہ وفاق پرست میرے خلاف عوام کو گمراہ کرنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں لیکن آج بلوچ عوام اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ ان کی منزل کیا ہے اور اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں کس راہ کا انتخاب کرنا ہے۔یہ نام نہاد قوم پرست جو ایک زمانے میں بذاتِ خود بلوچ آزادی کی بات کرتے نہیں تکتے تھے لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ انہوں نے ذاتی مراعات کی خاطربلوچ قوم کو کس نہج پہ پہنچادیا۔آج جب بلوچ قوم پرستی اپنے عروج پہ ہے تو ایسے عناصر کا حواس باختہ ہونا فطری عمل ہے کیونکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ بلوچ قوم ان سے نجات چاہتی ہے، قوم کی آزادی کی خواہش اب جاگ چکی،وہ اپنی غلامی کے احساس کو اجاگر کرچکے ہیں اور بلوچ قوم کا غلامی کے احساس کو ہروہ انسان جسے توڑی بہت جانکاری ہے وہ پاکستان سے نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں کیونکہ دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم کو غلامی کا احساس ہوا ہے وہ آزادی کی راہ پہ چل پڑاہے۔آج بلوچ قوم بھی اسی راہ کا مسافر ہے اور آزادی کے ان مسافروں کے کارواں کو بلوچ قوم کے یہ سوداگر لاکھ کوشش کے باوجود روک نہیں سکتے۔میں آپ لوگوں سے یہ کہنا چاہونگا کہ نیشنل پارٹی ہو یا قبضہ گیر ریاست کے دیگر حواری،ان میں سے جو مجھے جانتے ہیں انہیں اس بات کی جانکاری ضرور ہے کہ غلام محمد بلوچ کی زندگی کا مقصد اپنی قوم اور اس دھرتی کو دشمن سے آزاد کرانا ہے چاہے اس میں غلام محمد بلوچ کی جان ہی کیوں نہ چلی جائے لیکن غلام محمدبلوچ اغیار کے اشاروں پہ کبھی ناچ نہیں سکتا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ غلامحمدبلوچ ہوش سنبھالتے ہی اپنی زندگی قوم اور وطن کے لیے وقف کرچکا ہے۔باقی باتیں وقت پہ چھوڑنا چاہیے جو یہ ثابت کریگا کہ غلام محمدبلوچ ریاستی اداروں سے ڈیل کرچکا ہے یا یہ نام نہاد قوم پرست ریاستی منڈی میں قوم اور وطن کا سودا لگا چکے ہیں۔البتہ آپ لوگوں کو یہ بتا دوں کی میں غلام محمد بلوچ ریاستی ظلم و بربریت کو قریب سے دیکھنے کے بعد نظریاتی اور فکری حوالے سے مزید مضبوط ہوچکا ہوں۔ظلم کی وہ داستانیں جو میں بلوچ نوجوانوں پہ ہوتے ہوئے دیکھ آیا ہوں جہاں ان کاحوصلہ دیکھ کر کوئی باضمیر انسان ٹوٹ نہیں سکتا اور مجھے جس نے اپنی زندگی قوم اور وطن کے نام کی ہے کیسے اورکیونکردنیا کی کوئی طاقت کمزور بناسکتا ہے؟ قبضہ گیر کے ظلم وتشدد نے میرے ارادوں کو مزید مضبوط بناکر ان ضمیر فروش منحرفیں اور پاکستانی اداروں کے سامنے ایک فولادی دیوار بنادیا ہے۔میرا ضمیر اب تک زندہ ہے مالک اینڈ کمپنی کو ریاستی اہلکار میرے خلاف استعمال کرتے رہینگے اور آج ان کے اس کھیل نے اس بات پہ مہر ثبت کردی ہے کہ یہ خود ریاستی ایجنٹ اورمراعات یافتہ مہرے ہیں جو بلوچ آزادی کی تحریک کو ختم کرنے کے لیے پاکستانی اداروں کے شریک کار ہیں اور بلوچ قوم کے مجرم ہیں جنہیں سزا یہ قوم دیگی۔”۔
شہید غلام محمدبلوچ اور شہید شیرمحمد بلوچ کو تربت تھانے میں جس کسی نے بھی دیکھا تو انہیں یہ اندازہ ہوا کہ قابض ریاستی اداروں نے ان ہستیوں پہ ریاستی عقوبت خانوں میں ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں۔اس حوالے سے آپ شہید کا کہنا تھا کہ” آئی ایس آئی کے اہلکاروں نے ہمیں کراچی میں ہی اکتالیس (41) دنوں تک ایک تہہ خانے کی تاریک کوٹھڑی میں رکھا جہاں انہوں نے تشدد کے تمام طریقوں کو ہم پہ استعمال کیا۔تشدد اتنا شدید تھا کہ ہم پہ اکثر بے ہوشی طاری ہوجاتی تھی۔دوبارہ ہوش میں آتے تو تشدد کا سلسلہ پھر سے شروع ہوتا تھا۔چند دنوں کی تشدد کے بعدمیں جسمانی طور پر کافی کمزور ہوچکا تھا جس کی وجہسے میرے ہاتھ پاؤں مفلوج ہوگئے اور کانوں سے خون رسنے لگایہی حال میرے ساتھی شیر محمد کا تھا۔ اس دوران ان کا بنیادی سوال جو وہ اکثر دہرایا کرتے تھے کہ بتاؤ انڈیا،اسرائیل اور امریکہ تم لوگوں کو کتنی اور کیسے مدد کررہی ہے۔ان کے سوالات پہ مجھے ہنسی آتی تھی کہ میں جو کہ بلوچ نیشنل موومنٹ (BNM)کا قائد ہوں وہ مجھ سے ایسے سوال کررہے تھے جیسے کسی عام کارکن سے کیا جاتا ہے کیونکہ یہ بات وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمیں دنیا میں کوئی ملک مالی مدد نہیں کرتا ہاں البتہ اخلاقی حوالے سے کوئی اگر ہمارے حقوق کو تسلیم کرتا ہے تو یہ اس کاانسانی فرض ہے کہ وہ مظلوم اور محکوم انسانیت کی حق کی بات کرے۔
پاکستانی آئی ایس آئی کے ایجنٹ اکثر کہا کرتے تھے کہ تم لوگوں کو انڈیا، امریکہ اور اسرائیل پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کے لیے مالی امداد دے رہیں۔جب اس دوران جسمانی اور نفسیاتی تشدد کے بعد وہ میرے حوصلوں کو پست نہیں کرسکے تو انہوں نے مجھے مراعات، پاکستانی پالیمنٹ میں نمائندگی کے علاوہ بیرون ملک تمام آسائشیں دینے کا حامی بھرتے رہے اور کہتے رہے کہ غلام محمد آزادی کی باتیں کرنا چھوڑ دو جو مانگوگے وہ تمہیں لادینگے،زندگی کی ہر آسائش ہم پوری کرینگے بس یہ راہ چھوڑ دو۔ اس دوران وہ ان باجگزار بے ضمیر مراعاتی ٹولہ حئی، مالک اور ان کے بعض ساتھیوں کی مثالیں دیا کرتے تھے کہ انہیں ہم نے کس مقام پہ پہنچادیا ہے اگر تم ہماری بات مانو تو تمہیں ان سے اونچا مرتبہ عطا کرینگے۔میں انکار کرتا گیا اور وہ ظلم کرتے گئے۔
اکثر یہ سنتا تھا کہ ظلم کرنے کی کوئی حد نہیں لیکن برداشت کی ایک حد ہوتی ہے، جس امتحان سے میں گزرا اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ فکری اور نظریاتی حوالے سے مسلح ہو تو تشد د کرنے والے تھک جائینگے،ٹوٹ جائینگے مگر وہ آپ کے حوصلوں کو پست نہیں کرسکتے۔جب میں ان کی تمام خواہشیں رد کردیتا تو وہ واپس جسمانی تشدد پہ اتر آتے۔جسمانی تشدد کا یہ سلسلہ 41 دنوں تک جاری رہا۔اس کے بعد وہ اکثر نفسیاتی تشدد کا طریقہ کار اختیار کرتے تھے جو جسمانی تشدد سے سے بھی بدتر ہوتا ہے مگر ان کی اس بربریت نے اگر مجھے ثابت قدم رکھا تو یہ فقط میری بلوچ قوم اور گلزمین سے محبت تھی جس نے نہ مجھے ٹوٹنے دیا اور نہ جھکنے۔البتہ ان کی یہ بربریت سہہ کر میں نظریاتی حوالے سے خود کو پہلے سے زیادہ مضبوط تصور کرتا ہوں۔”
آپ چیئرمین تربت تھانے میں بھی اپنے پارٹی کے دوستوں اور بلوچ عوام کو پارٹی پروگرام بلوچ قومی تحریک آزادی کی جدوجہد جاری رکھنے اور انہیں ثابت قدم رہنے کی تاکید کرتے رہے۔ آپ چیئرمین کہا کرتے تھے کہ” میں رہوں یا نہ رہوں مگر بلوچ نیشنل موومنٹ کا پروگرام اور بلوچ قومی جنز آزادی کی جدوجہد جاری وساری رہ کر منزل کی جانب گامزن رہیگایہ میرا ایمان ہے اور بلوچ قوم کے جانثاروں پہ اعتماد ہے کہ وہ اس تحریک کو منزل تک پہنچا کے دم لینگے جو ان کی پہلی منزل ہوگی اور دوسری منزل بلوچستان کو دنیا کے لیے ایک مثالی ملک بنانا اور یہ سب آج کے تحریک سے وابستہ انقلابی کرکے دیکھائینگے اگر وہ بھی نہ رہیں تو وہ قوم کی اس انداز میں تربیت کرینگے کہ قوم اپنے مقاصد وہ چاہے وطن کی آزادی ہو یا قوم کی دونوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کے دم لینگے۔ ”
شہید کی باتیں اور اس کی سنجیدگی دیکھ کر مجھے بچپن کے دن یاد آگئے جہاں شہید غلامحمد بلوچ ہمہ وقت قوم اور وطن کی باتیں سننے اور ان کے اظہار کرنے کے لیے بے تاب ہوا کرتا تھا۔اس سے انسان کی اس سوچ کو تقویت پہنچتی ہے کہ اگر کسی چیز کو حاصل کرنے کی خواہش ہو تو دنیا لاکھ رکاوٹ کیوں نہ کھڑی کر دیں لیکن وہ رکاوٹیں ریت کے دیوار ثابت ہونگے۔غلام محمد بلوچ کو آج نظریاتی اور فکری حوالے سے اتنا مضبوط پاکر مجھے یہ یقین ہوچلا کہ غلام محمد بلوچ جس نہج پہ پہنچا ہے اسے دنیا کی کوئی طاقت اپنے مقصد سے بیگانہ نہیں کرسکتاکیونکہ اس نے خود کو پانے کی جو جدوجہد شروع کی تھی اس میں وہ پوری طرح کامیاب ہوچکا ہے۔
29ستمبر2007 ء کو آپ شہید چیئرمین اورشہید شیرمحمدبلوچ کو تربت تھانے سے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیاگیا جہاں قابض ریاست کے اہلکاروں کی توسط سے آپ چیئرمین پر آٹھ جھو ٹے مقدمات دائر کیے گئے تھے۔ پاکستانی عدالت کے حکم پر آپ اور آپ کے ساتھی شہید شیر محمدبلوچ کو پولیس تھانے سے سینٹرل جیل تربت منتقل کیا گیا۔ شہید شیر محمد بلوچ جو کہ تربت میں 14اگست کی مناسبت سے منعقد ہونے والے پروگرام کی وجہ سے مجرم ٹھہرایا گیا تھاحالانکہ بلوچ نیشنل موومنٹ کی جانب سے یوم سیاہ منانے کی مناسبت سے منعقدہ اس پروگرام میں شہید شیرمحمدبلوچ شریک نہیں تھے لیکن قابض کی فطرت کہ وہ راہ حق کے مسافروں کے ساتھ یہ رویہ روا رکھتا ہے جو انہوں نے شیرمحمد بلوچ کے ساتھ کیا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share This Article
Leave a Comment