پاکستانی مقبوضہ کشمیر : ریاستی مظالم کیخلاف ہڑتال و عوامی لانگ مارچ انقلابی نعروں کیساتھ جاری، حالات کشیدہ

0
84

پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں ریاستی مظالم عروج پر ہیں،11 مئی کو بنیادی حقوق کے لیے مظفر آباد لانگ مارچ کو روکنے کے لیے فورسز نے نہ صرف رہنماؤں،کارکنوں کو گرفتارکیابلکہ مظاہرین پرفائرنگ اور شیلنگ کی جس سے درجنوں افراد سمیت کئی بچے اب تک زخمی ہوئے ہیں۔

تازہ اطلاعات کے مطابق دس مئی سے جاری کریک ڈاؤن میں تیزی لائی گئی ہے۔آج بارہ مئی کے دن بھی ریاستی فورسز کا عوام پر تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔

دارالحکومت مظفرآباد میں پولیس کی جانب سے شیلنگ اور فائرنگ سے بچنے کیلئے مظاہرین میں سے ایک نوجوان دریائے نیلم کے پل سے گر کر دریا میں ڈوبا جو کچھ دیر بعد تیراکی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ کئی جگہوں پر پولیس کی شلنگ اور مار کٹائی سے مظاہرین زخمی ہوئے تو جواب میں مظاہرین نے لاٹھی، ڈنڈوں اور پتھروں سے پولیس پر جوابی حملے کر کے انھیں زخمی کیا ہے۔

کشمیر بھرمیں یہ پرتشدد کارروائیاں اس وقت شروع ہوئیں جب گزشتہ بدھ 8 مئی کی رات تحصیل ڈڈیال کے علاقے میں عوامی ایکشن کمیٹی کے اراکین اور احتجاج کرنے والے مظاہرین کو رات گئے مقامی پولیس نے گھروں میں چھاپے مار کر گرفتار کیا۔

گزشتہ تقریباً ایک برس سے مہنگے آٹے، مہنگی بجلی اور حکومت کی جانب سے عائد کیے گئے ٹیکسوں و مہنگائی کیخلاف جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام احتجاجی تحریک جاری ہے۔

اس ایک سال کے دوران ایکشن کمیٹی کی جانب سے متعدد بار احتجاج کیا گیا جس کے بعد حکومت نے مذاکرات کیے اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر پیش رفت کا اعلان کیا گیا، تاہم ایکشن کمیٹی کے مطابق حکومت نے تسلیم شدہ مطالبات میں سے بھی کسی پر عمل درآمد نہیں کیا جس باعث گیارہ مئی کو دارالحکومت مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا جسے ناکام بنانے کیلئے سب سے پہلے ڈڈیال کے علاقہ میں مظاہرین کو گرفتار کیا گیا جس کے ردعمل میں 9 مئی کی صبح ڈڈیال میں عوام کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔

احتجاج کے دوران اسسٹنٹ کمشنر ڈڈیال نے پولیس نفری کے ہمراہ مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی جس پر مظاہرین اور پولیس میں سخت جھڑپیں ہوئیں جس میں اسسٹنٹ کمشنر کو بری طرح مار پیٹ کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران متعدد پولیس اہلکار اور مظاہرین بھی زخمی ہوئے۔

واقعہ کی اطلاع سوشل میڈیا پر پھیلتے ہی پورے خطے میں احتجاج شروع ہو گیا۔ اس دوران ایکشن کمیٹی کی جانب سے اگلے دن یعنی گیارہ مئی کو میرپور ڈویڑن سے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب احتجاجی مارچ شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔

11 مئی کو ضلع میرپور کے علاقے چکسواری/ اسلام گڑھ میں مقامی پولیس انسپکٹر عدنان قریشی گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ جس پر اس خطے کی حکومت کے ترجمان عبدالماجد خان نے دعویٰ کیا کہ میرپور اسلام گڑھ میں مظاہرین کی فائرنگ سے ایک پولیس انسپکٹر عدنان قریشی چھاتی پر گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔ جبکہ مظاہرین کے مطابق پولیس اہلکار اپنے ہی ساتھی کی گولی سے ہلاک ہوا ہے۔

دوسری جانب سینئر صحافی عامر محبوب نے بھی اپنے پروگرام میں انکشاف کیا ہے کہ پولیس انسپکٹر اپنے ساتھی اہلکار کی گولی سے ہی ہلاک ہوا ہے اور عامر محبوب کے مطابق ہلاکت کی رپورٹ پولیس حکام کو باقاعدہ بھیج دی گئی ہے۔

عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر لانگ مارچ اور مظفر آباد دھرنا کے موقع پرحکومت نے مظاہرین کو روکنے کے لیے مظفرآباد کے داخلے اور خارجی راستے بند کرنے کے علاوہ تمام اضلاع کے بھی داخلی اور خارجی راستوں کو بند کر دیا ہے۔

کشمیر کے کئی علاقوں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم کی اطلاعات ہیں۔دارالحکومت مظفرآباد، راولاکوٹ، کوٹلی، پلندری، باغ، حویلی، ڈڈیال، نکیال، تتہ پانی، سہنسہ، سرساوہ، چکسواری، اسلام گڑھ، ہجیرہ، عباسپور، دھیرکوٹ اور رنگلہ سمیت خطے بھر میں گزشتہ تین روز سے نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج اور شیلٹر و پہیہ جام ہڑتال جاری ہے۔

مظاہرین کی قیادت کاکہناہے کہ ر یاستی حکومت نے پورے کشمیر میں کئی لوگوں کو گرفتار کر لیا ہے مگر اس کے باوجود عوام بڑی تعداد میں باہر نکل چکے ہیں اور اپنے مطالبات کے حق تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

میرپور و بھمبر سے شروع ہونیوالا عوامی مارچ کوٹلی کے علاقوں سے اب پونچھ راولاکوٹ کی جانب رواں دواں ہے۔

کوٹلی سے موصولہ اطلاعات کے مطابق عوام نے کوٹلی کے مرکزی چوک میں اکھٹے ہو کر میرپور سے آنے والے قافلوں کا استقبال کیا، جس کے بعد یہ قافلے پونچھ راولاکوٹ کے راستے مظفر آباد کی جانب روانہ ہو گئے ہیں۔

سہنسہ کے مقام پر پولیس اہلکاروں اور مظاہرین میں بڑا تصادم ہوا ہے جس میں کئی پولیس اہلکار اور مظاہرین زخمی ہوئے ہیں جبکہ یہاں بھی مظاہرین نے کئی گھنٹے تک اسسٹنٹ کمشنر کو گھر میں یرغمال بنائے رکھا جس کے بعد مظاہرین رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ گئے ہیں۔

تتہ پانی کے مقام پر بھی پولیس اہلکاروں اور مظاہرین میں ٹکراؤ ہوا ہے جہاں پولیس کی شلنگ کے جواب میں عوام نے پولیس پر پتھراؤ کیا ہے جس کے میں دوطرفہ زخمیوں کی اطلاعات ہیں۔

مظاہرین رات گئے پونچھ راولاکوٹ کی حدود میں داخل ہو گئے ہیں جہاں سے آج یعنی اتوار 12 مئی کو میرپور ڈویژ ن اور ضلع راولاکوٹ کے علاقوں عباس پور، ہجیرہ، کھائی گلہ، بنجوسہ تھوراڑ اور دوسری جگہوں کے قافلے راولاکوٹ شہر اگھٹے ہوں گے جہاں سے بڑا کارواں ارجہ کے مقام کی جانب بڑھے گا جہاں ضلع حویلی اور ضلع باغ کے قافلے جمع ہو کر مظاہرین کا استقبال کریں گے جہاں سے یہ کارواں دھیرکوٹ سے ہوتا ہوا کوہالہ کے راستے مظفرآباد روانہ ہو گا۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ میرپور سے لے کر ہر اسٹیشن کے داخلی اور خارجی راستے انتظامیہ اور پولیس نے بند کیے مگر یہ بات ہمیں خوفزدہ نہیں کرسکتی ہے اور نہ روک سکتی ہے، ہم نکل پڑے ہیں اور ہمارے پاس بھاری مشنیری بھی موجود ہے جس سے ’ہم راستوں کو کھولتے ہوئے مظفر آباد پہنچیں گے۔

قافلے میں خواتین بھی کافی تعداد میں شامل ہیں جنکا کہنا ہے کہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ حقوق کی تحریک میں شریک ہیں۔

دارالحکومت مظفر آباد میں دو روز سے نظام زندگی معطل ہے اور اب ایکشن کمیٹی نے تیسرے روز بھی شٹر ڈاون اور پہیہ جام ہڑتال جاری رکھنے کی کال دیدی ہے۔

سڑکوں پر ٹریفک نہیں ہے، پولیس کی بھاری نفری مظفر آباد کے مختلف مقامات پر موجود ہے۔ مظفر آباد کے تمام داخلی اور خارجی راستے انتظامیہ اور پولیس نے بند کردیے ہیں۔

مظفر آباد سے ایکشن کمیٹی کے ممبر راجہ امجد خان ایڈووکیٹ نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ موجودہ احتجاج کا اعلان اپنے گذشتہ احتجاج اور دھرنا جو کہ فروری میں ہوا تھا کا تسلسل ہے۔ اس وقت جب احتجاج اور دھرنا ختم کیا گیا تھا تو اس وقت ہی کہہ دیا تھا کہ اگر ہمارے دس نکاتی مطالبات جن میں بجلی کی قیمت میں کمی، آٹا پر سبسڈی، پراپرٹی پر ٹیکس، روزگار کے مواقع، غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی جیسے مطالبات منظور نہ ہوئے تو گیارہ مئی کو مظفرآباد میں احتجاج اور دھرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے مطالبات منظور نہیں ہوئے۔ حکومت صرف مزاکرات کرتی رہی مطالبہ کوئی تسلیم نہیں کیا جس کے بعد گیارہ مئی کے دھرنے پر عمل در آمد کا اعلان کیا گیا۔

امجد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ حکومت بوکھلائی ہوئی تھی اس نے گیارہ مئی سے پہلے ہی گرفتاریاں شروع کردیں، جس کی وجہ سے لوگ مزاحمت پر اتر آئے اور انھوں نے احتجاج شروع کردیا۔

ان کے مطابق حکومت نے اس احتجاج کو دبانے کے لیے تشدد کا سہارا لیا مگر لوگ ڈٹے رہے تو انھوں نے اب پورے کشمیر کو پولیس کالونی میں تبدیل کردیا ہے۔

امجد خان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اس وقت کشمیر میں مختلف مقامات پر بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ لوگ ان رکاوٹوں کو عبور کریں گے اور اگر عبور نہیں کرسکے تو وہاں ہی پر دھرنا ہوگا۔ مگر احتجاج ختم نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ مظفر آباد میں لوگ تیار ہیں۔ قافلے پہنچنے پر اسمبلی کے سامنے دھرنا ہوگا اور یہ پر امن ہوگا۔ حکومت فی الفور تمام رکاوٹیں ختم کرے۔

ادھر کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعظم چوہدری انوار الحق نے رات گئے اسلام آباد میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ وہ ایکشن کمیٹی سے مزاکرات کرنے اور انکے تمام جائز مطالبات تسلیم کرنے کیلئے تیار ہیں۔ تاہم وزیراعظم انوار الحق اپنی بات کہہ کر صحافیوں کے سوالات سنے بغیر چلے گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here