غزہ جنگ بندی کیلئے طلبہ کا پر امن احتجاج قابل قبول ہے،امریکی محکمہ خارجہ

0
28

غزہ میں فوری جنگ بندی کیلئے امریکا کے مختلف تعلیمی اداروں کے طلبا سراپا احتجاج ہیں۔

امریکہ نے کہا ہے کہ ٹیکساس میں غزہ میں جنگ بندی کے حامی مظاہرین پر تشدد کے واقعے کی مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں تاہم یہودی مخالف یا اسلام مخالف بیانات ناقابل قبول ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے معمول کی بریفنگ میں کہا، ٹیکساس کے واقعے کےبارے میں انتظامیہ مزید معلومات حاصل کر رہی ہے۔ پرامن احتجاج یقیناً قابل قبول ہے۔

تاہم انہوں نے کہا ہم امریکیوں کو ان کے پہلی ترمیم کے حق کا اظہار کرنے اور ان کی رائے کو پرامن غیر متشدد طریقے سے سننے کی پوری طرح حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن نفرت انگیز تقریر پرتشدد بیان بازی، بشمول یہودی مخالف یا اسلام مخالف ریمارکس، امریکہ کے لیے ناقابل قبول ہیں۔

غزہ جنگ کے خلاف امریکہ کے تعلیمی اداروں میں گزشتہ کئی روز سے ہونے والا احتجاج بدستور جاری ہے اور پولیس نے ریاست کیلی فورنیا اور ٹیکساس میں مزید طلبہ کو گرفتار کر لیا ہے۔ مظاہروں کے دوران طلبہ اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کے واقعات بھی رونما ہوئے۔

اسی طرح ریاست ٹیکساس کی ایک یونیورسٹی میں پولیس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مظاہرین کے درمیان تازہ ترین جھڑپوں میں درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا میں پولیس اور طلبہ کے درمیان بدھ کی صبح کشیدگی برقرار رہی اور مظاہرین نے کیمپس کے وسط میں بازوؤں میں بازو ملائے ایک حلقہ بنا لیا تھا۔ لیکن سورج ڈھلتے ہی پولیس نے کسی بھی مزاحمت کے بغیر طلبہ کو حراست میں لینا شروع کیا۔

طلبہ کی گرفتاری کے عمل کے دوران فضا میں ہیلی کاپٹروں کے اڑنے کی آوازیں بھی سنائی دیں۔

کولمبیا یونیورسٹی میں گزشتہ ہفتے 100 سے زائد طلبہ کی گرفتاری کے بعد سے شروع ہونے والا احتجاج امریکہ کے کئی تعلیمی اداروں تک پھیل گیا ہے۔ طلبہ کا مطالبہ ہے کہ غزہ میں فوری جنگ بندی، اسرائیل کو امریکہ ہتھیاروں کی فراہمی کی روک تھام اور اسرائیل سے مالی تعلقات منقطع کیے جائیں۔

کچھ یہودی طلبہ کا کہنا ہے کہ مظاہروں نے یہود دشمنی کی شکل اختیار کر لی ہے اور انہیں کیمپس میں قدم رکھنے سے خوفزدہ کر دیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here