شہدائے شکاگو کی انسانی آدرشوں کے لیے مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کو خراج پیش کرنے کے لیے جس طرح دنیا بھر کے محنت کش و محکوم عوام یکم مئی کو سڑکوں پر نکلتے ہیں بلاشبہ چند ایک مخصوص دنوں میں بین الاقوامی طور پر یہ دن دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے قابلِ فخر دن ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس دن کو جوش و جذبے سے منایا جاتا ہے۔
مزید برآں آج کے عہد میں جب سرمایہ دارانہ نظام کی ناہموار ترقی نے دنیا کے سماجوں میں استحصال کی شکلوں کو بدلتے ہوئے محنت کش طبقے کی بین الاقوامی جدوجہد کو ابہام کا شکار کرنے کی کوشش کی ہے، ایسے میں یکم مئی کا دن دنیا بھر کے محنت کش و محکوم عوام کو اپنے اپنے سماجوں میں جدوجہد کی سمتیں درست کرنے میں رہنمانا کردار بھی ادا کرتا ہے ۔
یکم مئی کو مزدور و محکوم نہ صرف اپنے سماج کے عام لوگوں کا درد اور تکلیفیں لیکر نکلتے ہیں بلکہ دیگر سماجوں کے اپنی طرح کے لوگوں کے درد اور تکلیفوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کرتے ہیں ۔
سرمایہ دارانہ نظام کی ناہموار ترقی میں یہ نظام سامراجی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سامراجی دیوہیکل پالیسیوں کے ذریعے نو آبادیات کے وسائل کی کھلم کھلا لوٹ کھسوٹ جاری ہے ، اس لوٹ کھسوٹ کے عمل میں شدت بڑی طاقتوں کے مفادات میں ٹکراؤ کی صورت میں بھی سامنے آتی ہے ۔ اس سرمایہ دارانہ نظام کی ناہموار ترقی نے دنیا کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔
دنیا کی اس سامراجی تقسیم نے انسانی سماجوں کو طبقاتی تضاد کیساتھ ساتھ بیش بہا مختلف تضادات میں الجھا دیا ہے ، یہ تضادات طبقاتی، صنفی ، قومی وغیرہ شکلوں میں انسانی سماجوں کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ باہیں بازو کی فکر رکھنے والی تنظیموں اور انقلابیوں کے لیے جدوجہد کے درست بنیادوں پر فرائض سر انجام دینا تب ہی ممکن ہے جب تضادات کے ان مجموعوں میں بنیادی تضاد کی نشاندہی کی جائے ، پھر اسی بنیادی تضاد پر کھڑے ہو کر اس تضاد کو گہرا کرنے کی جدوجہد ہی انقلابی عمل ہے، اسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ فکر و عمل کی وحدت ہوتی ہے۔
نوآبادیاتی سماجوں میں بنیادی تضاد قومی ہوتا ہے جب یہ قومی تضاد گہرا ہوتا ہے تو قابض قوتوں اور ان کے سہولت کاروں کو ایک ہی صف میں لاکھڑا کرتا ہے جس سے یہ قومی نجات کی جدوجہد طبقاتی سوال کے حل کی طرف بھی پیش رفت کرتی ہے ، بالخصوص پاکستانی سماج میں محکوم قوموں اور قومیتوں کی نجات کے سوال میں ایسا بالکل نہیں ہے کہ قومی نجات کی لڑائی میں مقامی بالادست طبقہ قومی نجات کی جدوجہد کا حصہ بنے بلکہ وہ اپنے طبقاتی مفادات کو تحفظ دینے کے لیے قبضہ گیر قوتوں کا نہ صرف حمایتی ہے بلکہ قبضہ گیر کے قبضہ کو دوائم بخشنے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ یہ پاکستانی سماج میں محکوم قوموں کی نجات کی لڑائی میں عملی طور پر ثابت ہوتا آ رہا ہے۔
ایسے سماجوں میں جاری قومی نجات اور آزادی کے بنیادی جمہوری سوال کو قومی شائونزم کے ساتھ جوڑنے کی غلطی سامراج اور اس کے حواری نظام کے حق میں جاتی ہے اور قومی و طبقاتی جد وجہد کے خلاف جاتی ہے، یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ پاکستان جیسے پسماندہ اور محکوم سماجوں میں قومی نجات اور وسائل پر اختیار کے حصول کی جدوجہد کو مختلف طریقوں سے ابہام کا شکار کیا جاتا ہے ۔ ایک تو ملت اسلامیہ کے نام پر بین القوامی جڑت کو پیدا کرنے جیسے موقف سے قومی نجات کے سوال کو ابہام کا شکار کیا جاتا ہے اور دوسرا طبقاتی غلاف میں لپیٹے خالی خولی طبقاتی جدوجہد کے الفاط سے قومی نجات کے سوال کو ابہام کا شکار کیا جاتا ہے ۔حالانکہ مارکسزم کے تناظر میں ہم دیکھیں تو محکوم اقوام کی آزادی کی جدوجہد نہ صرف درست ہے بلکہ مزدور بین الاقوامیت کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ قومیں ایک دوسرے کو آزاد اور برابری کی بنیاد پر تسلیم کرنے سے ہی شیروشکر ہوں گی ، مزدور بین الاقوامیت تک پہنچنے کے لیے مختلف سماجوں میں مختلف نوعیت کی جدوجہد میں فتح یاب ہو کر ہی دنیا بھر کے محنت کش و محکوم دنیا سے طبقاتی استحصال کا خاتمہ کریں گے ۔
بمطابق مارکسزم سرمایہ دارانہ نظام کی ناہموار ترقی کی وجہ سے آج ہر سماج میں ترقی ، نشوونما اور آگے کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ بننے والی وجوہات مختلف ہیں جن کی بنیاد پر ترقی و نشوونما کا یہ سفر سست روی کا شکار ہے۔ ان وجوہات کا گہرا مطالعہ کر کے ہی مارکسزم کی رہنمائی میں عام انسانوں کی زندگیوں کی نجات کی جدوجہد کو تیز اور نتیجہ خیز بنایا جا سکتا ہے ۔
یکم مئی 2024 محنت کشوں کے عالمی دن کے موقع پر جہاں ہم شدائے شکاگو کو خراج پیش کریں گے وہیں پر ہمیں شہدائے شکاگو کی جدوجہد کو آج کے عہد میں اپنے سماج میں آگے بڑھانے کے لیے معروضی حالات تضادات کی نوعیت، ان تضادات کو گہرا کرنے کی حکمت عملی اور موضوعی عنصر انقلابی تنظیم کی تعمیر پر جدید فکرو عمل اپنانے کی ضرورت ہے ۔
پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں جاری عوامی جمہوری حقوق کی تحریک اٹھان میں ہے ، محنت کش طبقے کی جدوجہد کے اس سرخ مہینے میں 11مئ کو عوام اپنے دکھ ،درد، تکالیف اور بےتوقیر زندگیوں کے شدید سوالات کو لیکر مظفرآباد اسمبلی کی طرف مارچ کریں گے ۔ اس عوامی تحریک کے اندر جموں کشمیر پیپلز نیشنل پارٹی کے کیڈر نے تنظیمی بساط اور طاقت کے مطابق اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے ،تحریک کو لیکر کیے جانے والے فیصلوں میں کچھ جلد بازی ، مہم جوانا طرزِ عمل اور ایسی کئ دیگر خامیوں کا نوٹس لینے اور ان پر اپنی مثبت رائے دینے اور اعتراضات نوٹ کروانے کے باوجود بھی پارٹی لیڈر مخلصی اور دیانت داری کیساتھ عوامی تحریک میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کرتا رہے گا۔ کیونکہ یہ عوامی تحریک جتنا زیادہ وقت لے گی اتنا ہی عوام کو باشعور کرئے گی ۔
اس تحریک نے لوگوں کو سوال اٹھانا سکھایا ہے ۔لوگوں کو درست موقف اپنانے کی طرف راغب کیا ہے۔لوگوں میں عوامی مسائل پر گفتگو کرنے کے رواج اور رجحان کو جنم دیا ہے ، سوال اٹھانا ، ہر طرح کے مسائل پر گفتگو کا رجحان ایسے عناصر ہیں جو سوسائٹی میں مثبت پیشرفت کا باعث بنتے ہیں۔ ان سارے حالاتِ میں یکم مئی 2024 مزدورں کا عالمی دن پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیر میں 11 مئی کے عوامی حقوق مارچ کی ریہرسل کا دن ہے۔یکم مئی کے دن عوام کو سڑکوں پر نکل کر اس دن کو شہدائے شکاگو کی جدوجہد کو خراج پیش کرنا چاہیے اور گماشتہ حکمرانوں کو یہ باور کروانا چاہیے کہ عوامی حقوق کی یہ تحریک شہدائے شکاگو کی جدوجہد اور عظیم قربانیوں کا تسلسل ہے ۔ اب تم حقوق دو گے یا اسمبلی چھوڑو گے تمھارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے ۔
٭٭٭