بلوچ دشمنوں کی مشترکہ کارروائی | دلساچ واھگ

0
27

بلوچ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ نہ تو ایران بلوچ سرزمین کا دوست ہے اور نہ پاکستان۔ بلوچستان کے مشرقی بلوچ، پاکستان کے خلاف اپنی تحریکِ آزادی کو منظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بلوچ عوام کے ہر باشعور فرد، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، اس جدوجہد میں برابر شریک ہیں اور اپنے مقصد کی جانب رواں دواں ہیں۔ تاہم، مغربی بلوچستان میں بسنے والے بلوچوں کو عرب ثقافت اور مذہب کے نام پر ان کی بلوچ شناخت سے محروم کیا جا رہا ہے، اور بیشتر اپنی شناخت کو مسلمان کہلانے تک محدود رکھتے ہیں، عربی مذہب کے دباؤ تلے اپنی ثقافت اور زبان کو فراموش کر چکے ہیں۔

حقیقت میں، اب یہ مذہب عربوں کا نہیں رہا بلکہ عرب خود بھی اس سے بہت حد تک آزاد ہو چکے ہیں۔ اب یہ مذہب پاکستان اور ایران کی جانب سے بلوچستان پر قبضہ جمانے اور بلوچ سرزمین کی معدنیات کو لوٹنے کے لیے ایک منظم حکمت عملی کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ بدقسمتی سے، بلوچ اپنے مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں میں آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ مغربی بلوچستان کے نوے فیصد عوام دشمنوں کے مذہب کے دھوکے میں اپنی ثقافتی شناخت، زبان اور کلچر سے ناواقف ہو چکے ہیں اور نادیدہ جنت اور حوروں کے خواب میں مبتلا ہو کر حقیقی زندگی کو پسِ پشت ڈال رہے ہیں۔ مشرقی بلوچستان کے بلوچ بھی اس مشکل میں گرفتار تھے، لیکن وہاں نوجوانوں اور سیاسی رہنماؤں کی وجہ سے مذہبی اثرات کمزور ہو چکے ہیں، اور بلوچ اپنی شناخت، زبان، کلچر، اور سرزمین کی آزادی کی جانب گامزن ہیں۔

مشرقی بلوچستان کے بلوچ جہدکاروں کے مغربی بلوچستان میں آ کر شہید ہونے کی وجہ سے اب یہاں کے باشعور نوجوانوں میں بھی اپنی زبان اور زمین سے محبت کا شعور بیدار ہو چکا ہے اور لوگ قوم دوستی کی جانب مائل ہو رہے ہیں، جو ایران کے لیے قابلِ قبول نہیں۔

مذہب اور قوم دوستی دو مختلف باتیں ہیں اور ان کا ملاپ ممکن نہیں۔ مذہب انسان کو انسانیت سے بیگانہ کر کے ایک الگ راستے پر لے جاتا ہے جہاں انسان اندھا ہو جاتا ہے، اور اس کی سمجھنے کی صلاحیت دفن ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایران مغربی بلوچستان میں شیعہ اور سنی مذہبی اختلافات کو بھڑکا کر بلوچ جدوجہد آزادی کے کارکنوں کو ایک ایسے راستے پر دھکیل رہی ہے جہاں ان کے لیے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔

ہم نے دیکھا ہے کہ پاکستان نے بھی اپنے قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے مذہب کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ چاہے وہ افغانستان ہو، کشمیر کا مسئلہ، یا بلوچستان اور خیبر پختونخوا۔ لیکن وہاں اب اس کے اثرات کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم، ایران اب بھی بلوچوں کو مذہبی شدت پسندی اور منشیات فروشی کے ذریعے دنیا کی نظروں میں بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے بلوچ خود بھی ان چیزوں میں شامل ہو کر اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہے ہیں۔

حال ہی میں، پنجگور کے علاقے کوہ سبز میں پاکستان اور ایران نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے جیش العدل کے ایک قافلے پر حملہ کیا، جس میں گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے بارہ بلوچ ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ جیش العدل ایک مذہبی تنظیم ہے جس کی بیشتر کارروائیوں کو پاکستان کی آئی ایس آئی اور فوج کی حمایت حاصل ہوتی ہے، اور یہ لوگ مذہب اور جہاد کے نام پر اپنے لوگوں کو بے مقصد قربان کر رہے ہیں۔ تاریخ میں ان کے بارے میں یہی لکھا جائے گا کہ اکیسویں صدی میں بلوچ، غلامی کے خلاف جدوجہد کے بجائے ایسی جنگ لڑ رہے تھے جس کا کوئی مستقبل نہیں۔

پاکستان اور ایران کے وزرائے خارجہ نے مل کر بلوچ فرزندوں کو نشانہ بنایا اور مشترکہ کارروائیوں کو جاری رکھنے کا عہد کیا ہے۔ اس بات سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بلوچ سرمچاروں کے خلاف ایران، پاکستان کی مکمل حمایت کرے گا۔ اس سلسلے میں ایران نے پہلے بھی کوہ سبز میں کارروائی کی تھی جس میں پاکستان نے مغربی بلوچستان میں بھی ایک حملہ کیا تھا، جس میں بی این ایم کے سینیئر کارکن چیئرمین دوستا اپنے بچوں سمیت شہید ہوئے۔ یہ سلسلہ شدت کے ساتھ جاری رہے گا۔ اب بلوچوں کو اپنے دشمنوں کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے، ورنہ بلوچ دشمنوں کی کارروائیوں کا شکار ہوتے رہیں گے۔

پہلے بلوچ کو مذہب کو ایک طرف رکھ کر بلوچیت کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور پھر دونوں اطراف کے بلوچوں کو ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔ مغربی بلوچستان کے بلوچ نوجوانوں کو مذہبی رہنماؤں کے پیچھے چلنے کے بجائے قوم دوستی کی طرف آنا ہوگا، اور مذہب بچانے کے بجائے اپنی سرزمین کو بچانے پر توجہ دینی چاہیے۔

جب مشرقی بلوچستان کے بلوچ تحریک آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں اور آزادی کے قریب ہیں، تو مغربی بلوچستان کے بلوچوں کو ان کی جانی و مالی مدد کے لیے آگے بڑھنا چاہیے اور اس جدوجہد میں اپنے بھائیوں کا مکمل ساتھ دینا چاہیے۔

٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here