حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ (ایچ آر ڈبلیو) کا کہنا ہے کہ سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایرانی حکام کی جانب سے بہائی اقلیت پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔ جوکہ انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔
نیویارک سے سرگرم ایچ آر ڈبلیو نے پیر کے روز کہا کہ بہائی ایران کی سب سے بڑی غیر مسلم اقلیت ہے۔ اسے سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ہی ملک میں جبر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس میں من مانی گرفتاریاں، جائیداد کی ضبطی، اسکول اور ملازمت کے مواقع پر پابندیاں حتی کہ باوقار انداز میں تدفین کے حقوق سے محرومی بھی شامل ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے کہا،”حکام کی جانب سے کئی دہائیوں سے جاری منظم جبر کا مجموعی اثر بہائیوں کے بنیادی حقوق کی جان بوجھ کر شدید محرومی کی صورت میں اجاگر ہو رہا ہے اور یہ ظلم انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔”
انسانی حقوق کی اس تنظیم کا استدلال ہے کہ یہ معاملہ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ جس کا قانون قومی، مذہبی یا نسلی بنیادوں پر بین الاقوامی قانون کے برخلاف بنیادی حقوق سے جان بوجھ کر اور شدید محرومی کو ظلم و ستم قرار دیتا ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے کہا کہ اگرچہ بہائیوں کے خلاف ظلم و ستم کی شدت کی نوعیت مختلف اوقات میں مختلف رہی ہے”لیکن اس فرقے پر ظلم و ستم بدستور جاری ہے، جو بہائیوں کی نجی اور عوامی زندگی کے تقریباً تمام پہلووں کو متاثر کر رہا ہے۔”
اس میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ، "بہائی عقیدے کے ماننے والوں کے خلاف شدید دشمنی رکھتی ہے اور اقلیتوں پر جبر ایرانی قانون میں شامل ہے اور یہ سرکاری پالیسی ہے۔”
ہیومن رائٹس واچ کے مشرق وسطیٰ کے ڈپٹی ڈائریکٹر مائیکل پیج نے کہا، "ایرانی حکام بہائیوں کو ان کی زندگی کے ہر پہلوں میں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرتے ہیں، ان کے عمل کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے۔”
ایسا کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہے جس سے پتہ چل سکے کہ ایران میں بہائیوں کی تعداد کتنی ہے لیکن انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیال ہے کہ ان کی تعداد کئی لاکھ ہوسکتی ہے۔بہائی عقیدہ نسبتاً نیا توحیدی مذہب ہے، جس کی روحانی جڑیں انیسویں صدی کے اوائل سے ایران میں ہیں۔
ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ ایران نے ایک مذہبی اقلیت کے طورپر بہائی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ بہائیوں کو آزادانہ طور پر حتی کہ نجی طور پر بھی عبادت کرنے سے روکا جاتا ہے۔
ایچ آر ڈبلیو کا کہنا ہے کہ ایرانی حکام”بہائی نام والے طلبہ کو یونیورسٹیوں میں داخلے سے منظم طورپر روکتے رہے ہیں، جب کہ بیشتر سرکاری شعبوں میں ملازمت کے دروازے ان پر بند ہیں۔ حتی کہ موت ہونے کے بعد بھی مقامی حکام تدفین کے عمل میں مداخلت کرتے ہیں اور بہائیوں کو اپنے پیاروں کو بہائی قبرستانوں میں تدفین کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہیں۔”