شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ – قسط وار سلسلہ

0
512

شہیدچیئرمین غلام محمد بلوچ
قائد انقلاب شہید غلام محمد بلوچ کی سوانح عمری اور سیاسی بصیرت کا ایک طائرانہ جائزہ
(…..ایک قسط وار سلسلہ…..) قسط۔10
تحریر: محمد یوسف بلوچ پیش کردہ : زرمبش پبلی کیشن

”سوانح حیات قائدِ انقلاب شہید چیئر مین غلام محمد بلوچ “بلوچستان کے جہد آزادی کے عظیم رہنما شہید چیئر مین غلام محمد بلوچکی سوانح عمری، جدجہد،فکرو نظریات اورسیاسی بصیرت پر مبنی یہ ایک تاریخی و دستاویزی کتاب ہے جسے ان کے بھائی محمد یوسف بلوچ نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب بلوچ جدو جہد آزادی کے کاروان میں شامل افراد کیلئے معلومات و دلسچپی کا ایک بہتر ذریعہ ہے ۔ ہم بلوچ قومی تحریک آزادی کے جہد کاروں سمیت بلوچ حلقوں کیلئے اس کتاب کو قسط وار شائع کرنے کا اہتمام کررہے ہیں تاکہ وہ شہید چیئرمین غلام محمد بلوچ کی سیاسی بصیرت، فکرو نظریہ اور تجربت سے استفادہ کرسکیں۔ یہ کتاب ہم ”زرمبش پبلی کیشن“کی شکریہ کے سا تھ شاع کر رہے ہیں۔(ادارہ سنگر)

(دسویں قسط)

بلوچستان نیشنل موومنٹ اور بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا انضمام:۔


2003ء میں بلوچستان نیشنل موومنٹ اور بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا انضمام کے حوالے سے گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس انضمام کا اصل مقصد2003ء کے پارلیمانی الیکشن میں کرسیاں حاصل کرنا تھا۔جہاں ان کی کوشش تھی کہ انضمام کے نتیجے میں ان کے زیادہ تر امیدوار کامیاب ہوجائیں جس کی رو سے وہ بلوچستان کے اقتدار کا مالک بن سکتے ہیں۔


اس انضمام کے حوالے سے پارٹی کارکنان کی سوچ مختلف تھی جہاں ایک گروہ اس انضمام کے حق میں تھا تو دوسری جانب ایک سوچ اس عمل کوپارٹی کے زوال سے تشبیہہ دے رہاتھا۔ان کا موقف یہ تھا کہ پارٹی کے نظریاتی کارکنان کو پسِ پشت ڈالنے کے لیے یہ انضمام راہ ہموار کریگی جو کہ ایک غیر سیاسی رویہ ہے کیونکہ اس انضمام کے مقاصد بلوچ قومی بقاء کے لیے نہیں بلکہ مراعات اور ریاستی اداروں میں اپنی قیمت بڑھانے کے لیے ہے۔نظریاتی دوستوں نے مزید کہا کہ اس انضمام کی وجہ سے سے انہیں دیوار سے لگانے کا کام آسان جائے ہوگا۔ شہید غلام محمد بلوچ بھی اس انضمام کو غیر منطقی عمل قرار دے رہا تھا اور انہوں نے کھل کر اس کی مخالفت بھی کی۔جہاں انہوں نے پارٹی لیڈر شپ سے کہا بھی کہ یہ فقط اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے انضمام کررہے ہیں اور جب ان کے مفادات کسی اور سے وابستہ ہونگے تو آنے والے دنوں میں انہی عناصر کی وجہ سے پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوجائیگا۔
اس انضمام سے شہید چیئرمین کو ایک خدشہ یہ بھی تھا کہ اگر یہ سارے مفادپرست عناصر ایک چھتری تلے جمع ہوگئے تو ممکن ہے کہ قوم کو زیادہ نقصانات برداشت کرنے پڑیں اورممکن ہے کہ وہ ساتھی جو آج نظریاتی تربیت کے عمل سے گزررہے ہیں وہ اس عمل کو قومی مفادات سے تعبیر نہ کریں۔ان کے اس عمل سے آنے والے کارکنان بھی اثر لے سکتے ہیں۔اسی لیے آپ نے نہ صرف پارٹی دیوان بلکہ عام محفلوں میں بھی اس عمل کی مخالفت جاری رکھا۔

باب چہارم
(انقلاب کا دور)

انقلابی جماعت:۔
ان عناصر کو راہ راست پہ لانے کے حوالے سے جب آپ کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئی تو آپ نے ان کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہتے ہوئے اپنے نظریاتی دوستوں کے ساتھ ملکر بلوچستان نیشنل موومنٹ کی آر گنائزنگ باڈی تشکیل دی۔یہ وہی دور ہے جب بلوچستان نیشنل موومنٹ اور بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی انضمام کرکے نیشنل پارٹی بنالیتے ہیں۔لیکن آپ شہید فدا احمد بلوچ کی پارٹی کو شہید فدا احمد کے نظریے اور فکرسے آراستہ کرتے ہوئے قوم کوغیر پارلیمانی سیاست اور مسلح جدوجہد کی راہ دکھانے نکل پڑتے ہیں۔
اس دوران بلوچستان نیشنل موومنٹ کی آرگنائیزنگ کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جس میں آپ کے ساتھ شہید لالا منیربلوچ، شہید رسول بخش مینگل اور واجہ محمد حسین بلوچ سمیت دیگر نظریاتی دوست شامل ہوکے بلوچ جہدِ آزادی کا پیغام گھر گھر پہنچانے کا بیڑا ٹھاتے ہیں۔ آپ چیئرمین اپنے نظریاتی دوستوں کے ساتھ ملکر پارٹی کا نصب العین بلوچ قومی حق آزادی، غیر پارلیمانی سیاست اور بلوچ سرمچاروں کی حمایت کی بنیاد پررکھکر بلوچ عوام کو نظریاتی و شعوری طور پر منظم کرنا شروع کرتے ہیں۔


بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں سیاست کا یہ عنصر پہلی مرتبہ دکھائی دے رہا تھا جہاں ایک جانب مسلح جد وجہد جاری تھا تو دوسری جانب بلوچ سماج میں ایک ایساانقلابی پارٹی وجود میں آچکا تھا جس نے کھل کر آزادی کی بات کرنے کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد کی بھر پور حمایت بھی جاری رکھا۔ یہ اور بات ہے کہ بلوچ تاریخ میں قلات سٹیٹ نیشنل پارٹی اور انجمن اتحاد بلوچاں نے بھی آزادی کی جد وجہد کی لیکن انہوں نے نظریہ گاندھی اپنایا ہوا تھا جہاں پر امن جدوجہد جاری تھا۔ اس کی واضح مثال جب بلوچستان پہ پاکستان قبضہ کرلیتا ہے تو قلات نیشنل پارٹی کے ماسوائے چند ارکان کے جو پارٹی فیصلے کا انتظار کیے بغیر آغا عبدلاکریم خان کی حمایت کرتے ہیں جب کہ پارٹی پہ اس دوران مکمل سکوت طاری ہوتا ہے جہاں وہ جمہوری سیاسی عمل میں بھی زوال پذیردکھائی دیتا ہے۔ایک بڑا عرصہ انتظار کے بعد شہید فدا احمد بلوچ قومی انقلابی پارٹی کی بنیاد رکھتا ہے لیکن وقت نے انہیں بھی موقع نہیں دیا اور وہ پارٹی کی تشکیل کے ایک سال بعد شہید ہوجاتے ہیں۔ اور اس دوران مسلح جدوجہد کا عمل بھی جمود کا شکار ہوتا ہے۔
لیکن اب حالات بدل چکے تھے ایک جانب مسلح جدوجہد جاری تھا تو دوسری جانب فروری2002ء میں بلوچ طلباء تنظیم قائم ہوتا ہے جو بلوچستان کی آزادی کے لیے نہ صرف جمہوری انداز فکر کی حمایت کرتا ہے بلکہ مسلح جد وجہد کو ایک اہم عنصر کے طور پہ دیکھتا ہے۔ اس انقلابی طلباء تنظیم کے بعد بلوچ قوم ایک عظیم انقلابی پارٹی کی ضرورت محسوس کرتی ہے اور ان کے اس خواب کو شہید غلام محمد بلوچ اپنے نظریاتی دوستوں کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے جہاں وہ بلوچستان نیشنل موونٹ کوقوم پرستانہ اور انقلابی سانچے میں ڈالتے ہیں۔ 2004ء کے کونسل سیشن میں بلوچستان نیشنل موومنٹ کی بجائے پارٹی کا نام بلوچ نیشنل موومنٹ رکھ دیا جاتا ہے۔


اس دوران پارلیمنٹ پرستوں نے آپ پر پارٹی توڑنے کے الزامات کے ساتھ یہاں تک کہہ دیا کہ آپ کو الیکشن کے لیے پارٹی ٹکٹ نہیں ملی اس لیے بھی آپ نے اپناراستہ جدا کیا۔ لیکن وقت نے ثابت کیاکہ مراعات کے شوقین میں اتنا حوصلہ کہا ہوتا ہے جوسر پہ کفن باندھ کے قومی آزادی حاصل کرنے میدانِ عمل کا رخ کریں۔اور آج بلوچ قوم انہی مراعاتِ یافتہ عناصر کے اعمال کا بخوبی مشاہدہ کررہے ہیں۔ جہاں کبھی امام بیل جیسا بدنامِ زمانہ ڈرگ مافیہ ایجنٹ ان کا رکن بنتا ہے تو کبھی ایم آئی کا منظورِ نظر پیدارک کے سردار عزیز۔جن کے ہاتھ بلوچوں کے خون سے رنگین ہیں اورموجودہ الیکشن میں آئی ایس آئی کا منظور نظر اور ہزاروں بلوچوں کا قاتل شفیق مینگل سے ان کا اتحاد۔ان سب واقعات سے اس امر کو مزید تقویت ملتی ہے کہ مالک، حئی اور بزنجوپاکستانی قبضے کے بعد کے فلسفے کے قائل،عملی طور پہ براہ راست بلوچ قوم کی نسل کشی میں ملوث ہیں۔اس حوالے سے مالک کا یہ بیان کہ ” بلوچستان میں سوات طرز کے آپریشن کرنے چاہیے” الغرض شہید فدا احمد کی شہادت کے بعد ان کا ہر عمل بلوچوں کو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیلنے کے مترادف ثابت ہواہے۔ پارٹی کونسل سیشن:۔


2004 ء کے کو نسل سیشن سے پہلے آپ تما م مکاتب فکرکے پاس آزادی کے واضح پیغام کے ساتھ گئے۔لیکن 80کی دہائی کے بعد مالک اور دیگر مخصو ص ٹولے نے لوگوں کے ذہن سے آزادی کے نعر ے کو تقریباًمٹادیا تھا اور بیشترلوگ آسائش پرست بن چکے تھے۔آپ کو پاگل کا خطاب دیاگیا۔لیکن آپ نے ہمت نہیں ہاری اور جد وجہد اور قوم سے رابطہ برقرار رکھا۔
30 اپریل تا2 مئی2004ء بلوچ نیشنل موومنٹ کے کونسل سیشن میں آپ پارٹی صدر منتخب ہوئے اور قومی آزادی کے پروگرام کے تحت قومی تحریک میں نئے روش باب کا اضافہ کیا۔
کامیاب کونسل سیشن کے بعد ایک جانب آپ شہید بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنوں کے ساتھ قومی آزادی کے پیغام کو بلوچستان کے ہر کوچہ و گدان تک پہنچا رہے تھے تو دوسری جانب پارلیمنٹ پرست عناصر آپ شہید اور اور آپ کے ساتھیوں کو عوام کے سامنے جذباتی اور عقل سے عاری پیش کررہے تھے، ان کی اس سوچ کا جواب آپ اکثر یہ دیا کرتے تھے کہ ہاں ہم جذباتی اور دیوانے ہیں۔ہم جذباتی ہیں کیونکہ ہم سے ہماری آزادی چھن گئی ہیں اور ہم پاگل ہیں کیونکہ ہمیں مادرِ وطن کے عشق نے دیوانہ بنادیا ہے اور ہمیں اپنے اس جذباتی پن اور دیوانگی پہ فخر ہے اور آج اسی جذبے نے ہمیں قومی آزادی کے نظریے سے سرشار کیا ہے۔
2004ء میں بلوچ نیشنل موومنٹ کاپانچواں مرکزی قومی کونسل سیشن ایک انقلابی نظریہ اور ولولے کے ساتھ شال(شہید نواب نوروز خان سٹیڈیم) میں بیاد شہید فدا جان منعقد ہوا۔اس انقلابی کونسل سیشن میں پارٹی کے نام کو بلوچستان کے بجائے بلوچ نیشنل موومنٹ رکھنے کا فیصلہ ہوا۔اس کونسل سیشن میں شہید غلام محمد بلوچ کے یہ اہم نکات بلوچ قومی تاریخ میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں جہاں وہ کہتے ہیں کہ پارٹی تین نقاط پہ کبھی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوگا۔
اول: بلوچ قومی آزادی کے لیے آخر وقت تک جدوجہدکرنا۔
دوم:جہدِ آزادی میں مسلح تنظیموں کی حمایت۔
سوم۔ پاکستانی پارلیمانی سیاست سے مکمل لاتعلقی۔
شہید نے مزید یہ کہا کہ یہ نکات بلوچ نیشنل موومنٹ کی اساس اور میراث ہیں اور ہم انہی نکات کو لے کر اپنا سیاسی عمل جاری رکھتے ہوئے بلوچ قوم اور دنیا تک اپنا پیغام پہنچائیں گے اور ان نکات کو پارٹی کے آئین کی اہم شقیں قراردیکر تمام کونسلران کی اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہوا کہ پارٹی کے کسی بھی کونسل سیشن کے دوران لیڈر شپ اور کونسل کے ارکان ان تین نکات کو حذف نہیں کر سکتے۔بلکہ ان نکات کو بلوچ قوم کی مال و متاع سمجھ کر ان کے دفاع کے لیے لہو تک بہائیں گے۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے اس تاریخی کونسل سیشن میں آپ (شہید غلامحمد بلوچ)پارٹی صدر منتخب ہوئے جبکہ سات رکنی مرکزی کیبنٹ کے دیگر دوستوں میں شہید لالا منیر بلوچ نائب صدر، واجہ رحیم ایڈوکیٹ مرکزی سیکرٹری جنرل، واجہ شہید انور ایڈوکیٹ ڈپٹی سیکرٹری جنرل، فنانس سیکرٹری حاجی نصیر، سیکرٹری اطلاعات یونس گنگو اور لیبر سیکرٹری حسن دوست بلوچ منتخب ہوئے جبکہ مرکزی کمیٹی کے لیے ان دوستوں کا انتخاب ہوا۔ڈاکٹر دین جان بلوچ، بانک نازیہ بلوچ، مولاداد، واجہ محمد حسین، عصاء ظفر، میجر محمد علی بلوچ، حمل بلوچ، اے ایس بلوچ، شاہ زمان بلوچ، عبدالصمد تگرانی، قادر سمالانی، عصمت اللہ بلوچ، رسول بخش مینگل، امام بخش بلوچ، قادر ایڈوکیٹ اوررحمت اللہ شوہاز۔
اس کونسل سیشن میں آپ کی طرف سے یہ تاریخی سلوگن بھی آیا کہ ”جدوجہد میرا ایمان، شہادت میرامقصد، بلوچستان میری پہچان اور آزادی میری منزل۔ اس اہم سلوگن کو کارکنان نے اپنا کر بلوچ قومی تحریک میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور آج تک نبھارہے ہیں۔


جب2مئی2004ء کو یہ نظریاتی انقلابی قومی کونسل سیشن اختتام پذیر ہواتو آپ(چیئرمین شہید)نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر انقلابی جذبے کے ساتھ بلوچستان کے ہر دمگ اورگلی کوچوں تک بلوچ نیشنل موومنٹ کا انقلابی پیغام پہنچانے رختِ سفر باندھ لیا۔

قومی سیاسی تاریخ میں انقلابی تبدیلی:۔
اگر ہم بلوچ قومی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس قوم پہ ہمیشہ شخصیات کی اجارہ داری نظر آتی ہے۔ حالانکہ بیسوی صدی نے دنیا کو ایک نئی سوچ دی جہاں اقوام نے ادارہ جاتی سیاست کو پروان چڑھانے کی جدوجہد شروع کی لیکن بلوچ قوم حالات کا فائدہ اٹھانے میں بُری طرح ناکام دکھائی دیتاہے۔ رجعت پرستانہ سوچ یا قدامت پرستی کی وجہ سے بلوچ قوم کی غلامی کی تاریخ طویل تر ہوتی چلی گئی حالانکہ اس دوران بلوچوں نے پہلے برطانوی سرکار سے جنگیں لڑی اور بعد میں پاکستان کے خلاف چار بڑی جنگیں لڑی، لیکن ہزاروں بلوچوں کی شہادت کے باوجود ناکامی مقدر بنی۔ ان تمام حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہی آپ شہید غلام محمد بلوچ اس نتیجے پہ پہنچے کہ جب تک بلوچ قوم کو اس جدید دور میں ایک مکمل سیاسی جماعت کی نمائندگی حاصل نہیں ہوگی تب تک بلوچ قوم اپنی منزل پانے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی۔ ایک ایسی جماعت جس کا خاکہ شہید فدا احمد بلوچ نے پیش کیا تھا جس میں رہنمائی فرد سے اداروں کو منتقل کیا جائے، ایک ایسی جماعت جو فرسودہ سیاسی اور سماجی نظام کی بیخ کنی کرسکے، ایک ایسی پارٹی جہاں رہنماؤں تک عوام کی رسائی ممکن ہو، ایک ایسی جماعت جہاں رائے کا آزادانہ اظہار ممکن ہو، ایک ایسی جماعت جو بلوچ قوم کو قبائلی خول سے نکال کر قومی دھارے میں شامل کرسکے، ایک ایسی جماعت جہاں رہنمائی کے لیے کردار، ذانت اور حصولِ محنت شامل ہوں۔
بلوچ قوم کی اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے بیسوی صدی کے دوسرے اور تیسرے عشرے میں یوسف عزیز مگسی اور میر عبدلعزیز کرد نے جدوجہد کی۔ ان کے بعد شہید فدا احمد بلوچ نے بیسوی صدی کے آخر میں قوم کو حقیقی راہ دکھانے کی کوشش کی۔ لیکن یوسف عزیز مگسی کی ناگہانی موت اور عبدلعزیز کرد کے ہمنواؤں نے اس کی اس خواہش کو پوری کرنے کی مہلت ہی نہیں دی اور شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کے بعد پارٹی مفاد پرستوں کے ہاتھ چڑھ گیا جنہوں نے قوم کے اس خواب کو چکنا چُور کردیا۔
شہید فدا احمد بلوچ کی شہادت کے پندرہ (15) سال بعد شہید غلام محمد بلوچ نے اپنے نظریاتی دوستوں جن میں شہید لالا منیر بلوچ، شہید رسول بخش مینگل، شہید ڈاکٹر منان بلوچ،شہید انور ایڈوکیٹ، واجہ محمد حسین، ڈاکٹر دین جان بلوچ اور رحیم ایڈوکیٹ کی بدولت قومی سیاست کو دورِ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق سائنسی سانچے میں ڈال دیا۔ جہاں قومی اختیارات کا مالک انہوں نے پارٹی اداروں کو بنادیاجس کی بدولت شخصی طاقت اور اختیارات کا دور قصہ پارینہ بن چکاتھا اب فقط تقسیم کار کی بات ہورہی تھی۔


اس نئی سیاسی ثقافت نے قوم میں آزادی کی امنگ بڑھادی تھی جس کی وجہ سے لوگ جوک در جوک بلوچ نیشنل موومنٹ میں شامل ہورہے تھے۔جس کے ثبوت عوامی اجتماعات اور صفحہ اول کے رہنماؤں کی شہادت کے باوجوود پارٹی کا موجودہ دور تک کی کارکردگی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
ایک ایسا سماج جس کا سیاسی ڈھانچہ ایک فرسودہ سماجی ڈھانچے کی شکل میں ہو۔جہاں سماجی اور سیاسی رہنمائی کا حق ان افراد کے حصے میں آتا ہو جو صدیوں تک بلوچ قوم کو تاریکیوں میں دھکیلنے کے لیے راہ مہیاء کیے ہوں تو ایسے میں سماج میں موجود فرسودہ نظام کے پیروکاروں کا ردِ عمل فطری ہے۔ جب آپ شہید نے بلوچ قوم کو ایک انقلابی پارٹی دی جہاں رہنمائی کے حق کے لیے کردار، ذانت اور محنت کو شرط قرار دیا تو فرسودہ نظام کے حواری کہیں آپ کو سرکار کا کارندہ تو کبھی آپ کو پاگل اور مجنون کے القابات سے پکارتے رہے لیکن آپ (شہید غلام محمد بلوچ)نے ان تمام باتوں کو اہمیت دیئے بغیر اپنا سفر جاری رکھا، جہاں آپ کو فقط یہ کہتے سناگیا کہ وقت ثابت کریگا کہ کون کیا تھا؟
آج جب ہم وقت و حالات کا منطقی بنیادوں پہ جائزہ لیتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ ہی وہ واحد قومی جماعت ہے جو قوم کو منزلِ مقصود تک پہچانے کی سکت رکھتی ہے۔ جبکہ دوسری جانب موروثی سیاست اور نیشنل پارٹی کی منافقانہ اور بلوچ دشمن سیاست قومی جہد اور بلوچ قومی شناخت کو مٹانے کے لیے ہمہ تن جہد کررہے ہیں۔لیکن آج قوم کی امیدیں بلوچ نیشنل موومنٹ سے وابستہ ہیں اور یہ اس لیے ممکن ہوا کہ پارٹی کو قائدین نے قیام کے دوران ہی مربوط اور مضبوط بنیاد فراہم کی۔جہاں انہوں نے علاقائی اور روایتی سیاست کی بیخ کنی کرکے بلوچ قوم کو پہلی مرتبہ ایک قومی جہد کی بنیاد فراہم کی۔ یہی وقت و حالات کا تقاضا تھا اور یہی کامیابی کی کنجی ہے۔جہاں بلوچ نیشنل موومنٹ کے نظریاتی و فکری دوستوں نے قوم کو ادارتی سیاست کی جانب گامزن کرنے کے لیے بلوچ قوم کوجدیداور منظم انداز میں سیاست کرنے کے گُر سے روشناس کرایا۔پارٹی کے کارکنان نے اپنی سوچ،نظریے اور کردار سے یہ ثابت کیا کہ اگر بلوچ سیاست میں اداروں کو دوام بخشا جائے تو قومی سیاست کبھی بھی زوال پذیر نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کسی کے بچھڑنے سے اس سیاسی نظام پہ کوئی اثر پڑسکتا ہے جو ماضی میں ہوتا رہا ہے۔اس حوالے سے چیئرمین خلیل بلوچ کا کہنا ہے کہ” شہید غلام محمدبلوچ کی شہادت ایک قومی المیہ تھا لیکن اس عظیم ہستی نے ہمیں ایسی راہ دکھائی جس پہ چل کر ہم اپنی منزل حاصل کرسکتے ہیں اور وہ ہے بلوچ نیشنل موومنٹ کا ادارتی نظام”۔


آج بلوچ جہدِ آزادی میں بلوچ نیشنل موومنٹ کو پندرہ (15) سال کا عرصہ گزرچکا ہے جہاں بڑی تعداد میں پارٹی لیڈرشپ دشمن کا نشانہ بن کے جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں۔ان عظیم ہستیوں میں پارٹی قائد شہید غلامحمد بلوچ،سیکرٹری جنرل شہید ڈاکٹر منان بلوچ، 2004ء میں منتخب ہونے والا پارٹی نائب صدر شہید لالا منیر بلوچ، ڈپٹی سیکرٹری جنرل شہید رسول بخش مینگل، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری حاجی رزاق، مرکزی فنانس سیکرٹری شہید رزاق گل۔ لیکن اس کے باوجود پارٹی کامیابی سے جانبِ منزل رواں ہیں۔اور یہ اس لیے ممکن ہوا کہ انہی عظیم ہستیوں نے اپنی جدوجہد کے ذریعے ہر مشکل کا مقابلہ کرتے ہوئے فرسودہ نظام کی جگہ بلوچ قوم کوایک ایسا منظم نظام عطاء کیا جس نے آج تک نہ صرف پارٹی کے وجود کو برقرار رکھا ہے بلکہ اسے جدید سے جدید تر بنانے کی راہ پہ گامزن کیاہے۔
کارکنوں کی گرفتاریاں:۔
3 مئی2004ء یعنی سیشن کے دوسرے دن گوادر مین چینی انجینئروں پربلوچ سرمچاروں نے حملہ کرکے2چینی اہلکاروں ہلاک کیا اور 30 مئی کو بلوچ سرمچاروں نے مند ایف سی کیمپ پر ایک شدید حملہ کیا جس سے فورسز کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ان حملوں کے بعد ریاستی فورسز نے بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنوں کے خلاف ایک محاذ کھول دیا۔اس ریاستی جبر کا نشانہ بننے والا پہلا شخص بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی فنانس سیکرٹری حاجی نصیر بلوچ بنے۔ جنہیں ”مند سورو” سے فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کردیا۔انہی دنوں ریاستی جبر میں اس وقت مزید شدت دیکھنے میں آئی جب تمپ اور دشت سے بلوچ نیشنل موومنٹ)کے کارکنوں اور ہمدردوں کی ایک بڑی تعداد فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور کئی دنوں تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔سیاسی اسیروں اور ان کے خاندانوں کو مزید پریشان کرنے کے لیے ان کے خلاف مختلف مقدمات کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی۔لیکن آپ شہید چیئر مین اور نظریاتی دوستوں نے بلوچ قومی تحریک آزادی کے انقلابی پروگرام کو جاری رکھتے ہوئے لوگوں کو متحرک کرنے کے لیے عوامی رابطہ مہم شروع کیا۔اس پروگرام کی وجہ سے عوام کے ساتھ روابط مزید مضبوط ہوتے گئے اور پارٹی پروگرام کا چرچہ پورے بلوچستان میں ہونے لگا۔اس نظریاتی رجحان کی وجہ سے ریاست اور اس کے آلہ کاروں کا خوف زدہ ہونا فطری تھا اس لیے ریاست نے ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے وہ چاہے سیاسی کارکنوں کی غیر آئینی گرفتاریاں ہو، یا انسانی حقوق کے قوانین کے خلاف ان سیاسی کارکنوں کے خاندانوں پہ دباؤ پہ دباؤ ڈالنے کے لیے دھمکیاں یا پاکستانی پارلیمنٹ کے حامی جماعتوں کو یہ ذمہ داریاں سونپنا کہ وہ بلوچ عوام کو آزادی پسندوں سے دور رکھیں۔ الغرض ریاست نے اپنی پوری کوشش کی کہ بلوچ نیشنل موومنٹ اور بلوچ عوام آزادی کے موقف سے دستبردار ہوں لیکن اس ریاستی سوچ کو ہر بار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور بلوچ نیشنل موومنٹ اپنے نظریے کو عوامی سطح پہ اجاگر کرنے کے لیے مزید جوش اور ولولے کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔

ریاستی جبر میں شدت:۔
بلوچ قوم کی آزادی کی امنگ دیکھ کر قبضہ گیر ریاست بلوچستان کے طول و عرض میں فوجی کاروائیاں تیز کرنے کے ساتھ ساتھ فوجی چھاونیوں اور چیک پوسٹوں کی تعداد میں اضافہ کرتا گیا۔ریاست کے قائم کردہ ان چیک پوسٹوں پہ عوام کی عزتِ نفس کو مجروح کرنے کا پورا اہتمام کیاگیا تھا۔ریاست کے اس عمل سے عوام میں غصے کی لہر دوڑ گئی تھی جہاں ہر کوچہ گدان میں موضوع بلوچستان میں ریاستی مظالم اور ان مظالم سے چھٹکارا پاناتھا۔
بلوچ نیشنل موومنٹ کے کارکنان عوام سے بدستور رابطے قائم میں تھے اور ہر مقام پہ کارنر میٹنگز اور عوام کو متحرک کرنے کے لیے پروگراموں کا انعقاد کررہے تھے۔انہی پروگراموں میں سے ایک،مند شہر میں بلوچ نیشنل موومنٹ کے جلسے کا انعقاد بھی تھا جس کے لیے 2 جون2005ء کا دن مختص کیا گیا تھا۔
جب نظریاتی رجحان، سوچ اور انقلابی نظریہ کو ختم کرنے کیلئے ریاستی حفیہ اداروں اور پارلیمانی غداروں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔تو ریاستی فورسز حرکت میں آگئے اور ایف سی کے اہلکاروں نے مند کے تمام علاقوں کو سیل کرکے ہرمقام کو فوجی چوکی میں بدل دیا جہاں وہ سیاسی پروگراموں کو ناکام بنانے کے لیے عوام کو خوفزدہ کرنے کی جہتیں کیں لیکن ان کا یہ عمل اس وقت ناکامی کی تصویر پیش کرنے لگی جب 2جون2005ء کو عوام کا ٹھاٹھے مارتا سمندر پارٹی جلسہ گاہ کا رخ کرنا شروع کیا۔ریاست کو جب اپنی ناکامی کا مکمل یقین ہوچلا تو انہوں نے جلسہ گاہ پہ ہلہ بول دیا لیکن عوام نے جوانمردی سے فورسز کا مقابلہ کیا اور آخر کار ریاستی فورسز کو پیچھے ہٹنا پڑا۔حالانکہ اس وقت تک فقط کارکنان جلسہ گاہ کو سجا رہے تھے۔پیچھے ہٹتے ہی فورسز نے فائرنگ کا شدید سلسلہ شروع کیا۔فائرنگ کی آواز سن کر ہزاروں کی تعداد میں لوگ جلسہ گاہ کی جانب روانہ ہوئے۔ لوگوں نے ہمت اور دلیری دکھائی۔اور اپنے قائد (شہید غلام محمد بلوچ(جو ان کے درمیان موجود تھا کو یہ پیغام دیا کہ ریاست چاہے جبر کا کوئی بھی طریقہ اپنائے وہ ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتا۔
ریاستی بربریت کے باوجود بلوچ نیشنل موومنٹ نے اپنا جلسہ طے شدہ پروگرام کے مطابق جاری رکھا۔جب آپ چیئرمین نے سٹیج سنبھالا تو عوامی ہجوم نے تالیوں اور نعروں سے آپ کا والہانہ انداز میں استقبال کیا۔اس دوران جلسہ گاہ عوامی نعروں سے گونج اٹھا اور ہر سمت سے آزادی کے نعرے بلند ہوتے گئے۔اس ریاستی جبر کے باوجود جلسہ گاہ میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہیں تھی جو اس بات کا منہ بولتا ثبوت تھا کہ عوام آزادی کی راہ پہ گامزن ہوچکا ہے۔


اپنے تقریر میں آپ چیئرمین نے عوام کی حب الوطنی دیکھ کر کہا کہ” آپ حضرات کے اس عوامی سمندر کے سامنے ریاست کو پیچھے ہٹنا پڑیگا، اسے اپنی فوجی چوکیاں جہاں فقط ہمارے لوگوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے ریاست کو اپنا یہ عمل ختم کرنا پڑیگا اور جب ہم یہاں سے ریلی کی صورت میں اپنا سفر شروع کریں گے تو ممکن ہے کہ ریاست طیش میں آکے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ آپ لوگو کی یہ شجاعت دیکھ کر آج یہ یقین ہوچلا ہے کہ ریاست ہمارے عزم کو ختم نہیں کرسکتا چاہے وہ بربریت کا طوفان ہی کیوں نہ کھڑی کردے”۔ آپ چیئرمین کی تقریر نے لوگوں کو قومی جذبے سے سرشار کیا جہاں طوفانی نعرے شروع ہوئے کہ چیرمین غلام محمد۔۔۔قدم بڑھاؤ۔۔۔ہم تمھارے ساتھ ہیں۔۔۔جلسہ گاہ کی ہر سمت سے یہی آوازیں سنائی دے رہی تھی۔آپ نے کہا کہ ہمارا یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہیگا جب تک ریاست اپنے فوجی چوکیوں کا خاتمہ نہیں کرتا، اگر اس احتجاج میں میری جان بھی چلی جائے تو میں یہ امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ منزل کی جانب کامیابی سے قدم بڑھاؤ گے۔
شہید غلام محمد بلوچ نے جوں ہی اپنی تقریر ختم کی تو فوجی چیک پوسٹوں کی جانب قدم بڑھانے لگے عوام نے اپنے قائد کی دیدہ دلیری جب دیکھی تو پورا مجمع شہید غلام محمد بلوچ کا ساتھ دینے چل پڑا جو مکران کی تاریخ کی سب سے بڑی ریلی تھی جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ دشمن کی بربریت کے خلاف کمر بستہ تھے۔ ریاستی فوج کے درندوں نے حتی الوسع کوشش کی کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کا یہ احتجاج ناکام ہو اسی لیے انہوں نے عوام کو منتشر کرنے کے لیے اپنی بندوقوں سے شعلے برساتے رہیں۔لیکن عوام ریاست کے اس عمل کو خاطر میں لائے بغیر اپنا احتجاج جاری رکھتے ہوئے آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ جب یہ ریلی” مندیگ کور”چوکی کے قریب پہنچ گئی تو ایف سی کے اہلکاروں نے میشن گنوں اور باری ہتھیاروں کے منہ کھول دیے۔قابض ریاست نے فائرنگ سے لوگوں کے حوصلے پست کرنے کی آخری کوشش کی لیکن ریاست کے اس عمل کا الٹا اثر ہوا۔ عوام نے جب ریاستی بربریت دیکھی تو وہ لوگ بھی جو اب تک گھروں میں بیٹھے تھے احتجاج کرنے والوں میں شامل ہوتے گئے۔ریاستی فائرنگ کے نتیجے میں دو نوجوان زخمی ہوئے جنہیں ”مند سورو” رورل ہیلتھ سینٹر(آر ایچ سی)لے جایا گیا۔ریاستی فورسز کی بربریت دیکھ کر عوام نے فوج پہ پتھروں کی بارش کرکے انہیں بھرپور جواب دیا۔اس ریاستی جبر کے باوجود لوگوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے اور انہوں کسی موقع پہ بھی اس کارواں کو رکنے نہیں دیا یہاں تک کہ ریاست گفت وشنید پہ مجبور ہوا اور انہوں نے یہ یقین دہانی کرائی کی کہ چوکیاں ختم کیے جائینگے لیکن شہید غلام محمد بلوچ نے ان کا یہ حکم نامہ ماننے سے انکار کیا اور کہا کہ جب تک فوجی چوکیاں ختم نہیں کیے جاتے ہم اپنا احتجاج ختم نہیں کرسکتے چاہے اس کے لیے مند ایک جلیاں والا باغ ہی کیوں نہ بن جائے۔ آخر کار شام چار بجے ریاست کو جھکنا پڑاجہاں قائم کردہ تما چوکیوں کا صفایا کیا گیا۔
چوکیوں کے ہٹانے کے بعد جلوس نے شکست خوردہ فوج اور انتظامیہ کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے واپس ”مندسورو”بازار میں جلسے کی شکل اختیار کی۔جہاں آپ نے عوام کی ثابت قدمی پر انہیں مبارکباد دی۔


آپ شہید چیئرمین کی رہنمائی میں اس کامیاب احتجاج کے اثرات اور عوامی حمایت نے ریاستی انتظامیہ کے ساتھ ریاستی باجگزار پارلیمانی سوداگروں کو بھی حواس باختہ کردیا تھا جہاں وہ بلوچ قوم کی اس کامیابی کو اپنی سیاسی موت تصور کرنے لگے تھے۔اسی لیے اس کامیاب احتجاج کے بعدقابض ریاست نے آپ چیئرمین کے خلاف مقدمات دائر کرکے آپ کی سیاسی انقلابی سرگرمیاں روکنے کی سازش کرکے آپ کو اشتہاری مجرم قرار دیا۔
مند احتجاج کے بعد آپ کراچی چلے گئے۔اس دوران آپ کراچی میں پارٹی سر گرمیوں میں مصروف عمل تھے۔جب قبضہ گیر ریاستی عدالت نے آپکو اشتہاری قرادیا۔تو پارٹی کے مرکزی کمیٹی نے آپ چیئرمین کیلئے مکران کے حالات کو ناسازگار قرار دیکر مکران جانے پرپابندی لگانے کا فیصلہ کردیا۔ اسی لیے آپ شہید پارٹی فیصلے کی مدِ نظر رکھتے ہوئے 10جون2005ء تا14اگست2006ء تک کراچی اور بلوچستان کے د وسرے علاقوں میں پارٹی کو منظم اور مستحکم کرتے رہے جبکہ مکران کی ذمہ داریاں دیگر دوستوں نے سنبھالاتھا۔
اس دوران کراچی جیسے شہر کو ایک مرکز کی حیثیت سے استعمال کرنے کے بہت سارے فوائد دیکھنے کو ملے۔ جہاں ایک جانب کراچی میں آباد بلوچ قوم تک آپ کی رسائی آسان ہوگئی جس سے اس شہر کے بلوچوں کو قومی دائرے میں شامل کرنے کے لیے آپ شب وروز محنت کرتے رہے۔آپ کی اس محنت سے کراچی ایک مرتبہ پھر بلوچ سیاست میں مرکزی کردار ادا کرنے کی طرف جانے لگا۔ دوسری جانب سندھی قوم پرست تنظیموں سے آپ نے روابط بنائے بنائے رکھے۔آپ کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ اگر پاکستان میں موجود دیگر محکوم اقوام اپنے حقوق کے لیے عملی جدوجہد کی راہ اپنائیں گے تو ریاست کی طاقت منتشر ہوگی جس سے بلوچ قوم کے ساتھ ساتھ خطے میں موجود تمام محکوم اقوام اپنے مقاصد حاصل کرپائیں گے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here