پاکستان کے انتخابی عمل میں بےضابطگیاں دیکھی گئیں، امریکی سفارتکار

ایڈمن
ایڈمن
3 Min Read

امریکہ کے جنوبی و وسطی ایشیائی امور کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے ایوانِ نمائندگان کی پاکستان کے آٹھ فروری کے انتخابات پر ایک سماعت کے لیے جمع کرا ئے گئے بیان میں مبینہ انتخابی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔

امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ میں بدھ کو پاکستان کے انتخابات سے متعلق سماعت ہونے جا رہی ہیں جس میں ڈونلڈ لو کو بطور گواہ طلب کیا گیا ہے۔

اس سماعت کو پاکستان انتخابات کے بعد؛ ملک میں جمہوریت کے مستقبل کا جائزہ اور پاکستان، امریکہ تعلقات کا عنوان دیا گیا ہے۔

یہ سماعت ایک ایسے موقع پر ہو رہی ہے جب نہ صرف پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں بلکہ امریکہ میں بھی دو درجن سے زائد ارکانِ کانگریس نے انتخابی شفافیت پر سوال اٹھائے ہیں۔

ڈونلڈ لو نے کمیٹی میں پیشی سے قبل جمع کرائے گئے اپنے تحریری بیان میں بتایا ہے کہ وہ 31 برس قبل جب پشاور میں بطور جونیئر افسر تعینات تھے تو انہوں نے پاکستان کے انتخابات کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔

اس سال آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات سے متعلق ڈونلڈ لو نے کہا کہ پاکستان میں انتخابات کی نگرانی کے لیے پانچ ہزار سے زائد آزاد مبصرین موجود تھے اور مبصرین کی تنظیموں نے نتیجہ اخذ کیا کہ آٹھ فروری کے انتخابات بڑی حد تک مسابقتی اور منظم تھے۔

البتہ انتخابی نتائج مرتب ہونے کے عمل میں بعض بے ضابطگیاں دیکھی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن سے قبل ہونے والے تشدد اور انتخابی زیادتیوں پر ہم نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، کیوں کہ سیاست دانوں سمیت سیاسی اجتماعات اور پولیس پر حملے ہو رہے تھے اور دوسرا یہ کہ کئی صحافیوں خاص طور پر خواتین صحافیوں کو سیاسی جماعتوں کے حامیوں کی جانب سے ہراساں بھی کیا گیا۔

ڈونلڈ لو نے کہا کہ کئی سیاسی رہنما خود کو مخصوص سیاسی جماعت کے ساتھ رجسٹر نہیں کرا سکے۔

لو نے کہا کہ الیکشن کے روز مقامی انتخابی نگران تنظیموں نے کہا کہ انہیں ملک بھر میں آدھے سے زیادہ حلقوں پر ووٹوں کی گنتی کے عمل کی نگرانی سے روک دیا گیا جب کہ ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود حکام نے موبائل ڈیٹا سروس بند کر دی جس کا مقصد تھا پاکستانی عوام کو سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپلی کیشنز تک رسائی کو روکنا تھا۔

Share This Article
Leave a Comment