بھارتی ریاست آسام میں مسلم میرج اور طلاق ایکٹ منسوخ

0
172

بھارت کی ریاست آسام نے اقلیتی برادری کے رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود 89 سالہ پرانے قانون کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت کم عمر مسلمانوں کو شادی کی اجازت حاصل تھی جب کہ مسلمانوں نے اس اقدام کو انتخابات سے قبل ووٹرز کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کی کوشش قرار دیا ہے۔

آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے ہفتے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر پوسٹ میں کہا کہ آسام نے رواں ماہ 24 فروری سے مسلم شادیوں اور طلاقوں کے رجسٹریشن ایکٹ 1935 کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔

آسام میں شادی کے لیے دلہا کا 21 جب کہ دلہن کا 18 برس کا ہونا ضروری ہے، تاہم مسلم میرج ایکٹ اس عمر سے قبل بھی شادی کی اجازت دیتا تھا۔

اتوار کو وزیرِ اعلی سرما سے رائٹرز کے پوچھنے پر کہ کیا شمال مشرقی ریاست مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل یکساں سول کوڈ کو نافذ کرے گی تو سرما کا کہنا تھا کہ ابھی فوری طور پر نہیں۔

بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں یونیفارم کوڈ کے نفاذ پر مسلم خواتین کی رائے منقسم ہے۔

بعض ماہرین اسے حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی کڑی قرار دے رہے ہیں۔ چند روز قبل بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں بھی ایک سے زائد شادیوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جب کہ ریاست آسام کی بی جے پی حکومت نے بھی ایسے ہی اقدام کا عندیہ دیا تھا۔

بھارت میں مسلمان، مسیحی برادری اور دیگر اقلیتیں اپنی روایات اور رسم و رواج کے مطابق ضابطوں کی پیروی کرتے ہیں۔ تاہم بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ملک بھر میں یونیفارم سول کوڈ متعارف کرانے کا عزم کر رکھا ہے۔

تاہم کئی مسلمان بی جے پی پر ہندو ایجنڈا آگے بڑھانے، مسلمانوں پر امتیازی قوانین تھوپنے اور اسلامی شرعی اصولوں میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں۔

بھارتی ریاست آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34 فی صد ہے جو کسی بھی دوسری بھارتی ریاست کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here