بھارت کی ریاست آسام نے اقلیتی برادری کے رہنماؤں کی مخالفت کے باوجود 89 سالہ پرانے قانون کو ختم کر دیا ہے جس کے تحت کم عمر مسلمانوں کو شادی کی اجازت حاصل تھی جب کہ مسلمانوں نے اس اقدام کو انتخابات سے قبل ووٹرز کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کی کوشش قرار دیا ہے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا سرما نے ہفتے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر پوسٹ میں کہا کہ آسام نے رواں ماہ 24 فروری سے مسلم شادیوں اور طلاقوں کے رجسٹریشن ایکٹ 1935 کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔
آسام میں شادی کے لیے دلہا کا 21 جب کہ دلہن کا 18 برس کا ہونا ضروری ہے، تاہم مسلم میرج ایکٹ اس عمر سے قبل بھی شادی کی اجازت دیتا تھا۔
اتوار کو وزیرِ اعلی سرما سے رائٹرز کے پوچھنے پر کہ کیا شمال مشرقی ریاست مئی میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل یکساں سول کوڈ کو نافذ کرے گی تو سرما کا کہنا تھا کہ ابھی فوری طور پر نہیں۔
بھارتی ریاست اترا کھنڈ میں یونیفارم کوڈ کے نفاذ پر مسلم خواتین کی رائے منقسم ہے۔
بعض ماہرین اسے حکمران جماعت بھارتیا جنتا پارٹی (بی جے پی) کی جانب سے یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کی کڑی قرار دے رہے ہیں۔ چند روز قبل بھارتی ریاست اتراکھنڈ میں بھی ایک سے زائد شادیوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی جب کہ ریاست آسام کی بی جے پی حکومت نے بھی ایسے ہی اقدام کا عندیہ دیا تھا۔
بھارت میں مسلمان، مسیحی برادری اور دیگر اقلیتیں اپنی روایات اور رسم و رواج کے مطابق ضابطوں کی پیروی کرتے ہیں۔ تاہم بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے ملک بھر میں یونیفارم سول کوڈ متعارف کرانے کا عزم کر رکھا ہے۔
تاہم کئی مسلمان بی جے پی پر ہندو ایجنڈا آگے بڑھانے، مسلمانوں پر امتیازی قوانین تھوپنے اور اسلامی شرعی اصولوں میں مداخلت کا الزام عائد کرتے ہیں۔
بھارتی ریاست آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34 فی صد ہے جو کسی بھی دوسری بھارتی ریاست کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔