انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ’ہیومن رائٹس واچ‘ نے کہا ہے کہ ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا 13 سال سے کم عمر کے بچوں کو ایک وسیع مہم کے حصے کے طور پر بھرتی کر رہی ہے۔
انسانی حقوق گروپ کے مطابق فلسطین میں جاری جنگ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حوثی ملیشیا اپنی افرادی قوت بڑھانے کے لیے بچوں کو جنگ کا ایندھن بنا رہی ہے۔
تنظیم کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 7 اکتوبر کو غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے حوثیوں نے ہزاروں بچوں کو اپنی افواج میں بھرتی کیا ہے۔ انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے فلسطین کو آزاد کرانے کا نعرہ اختیار کیا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کہ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو بھرتی کرنا ایک جنگی جرم ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے یمن اور بحرین کے محقق نیکو جعفرنیا نے کہا کہ "حوثی یمن میں اپنی اندرونی لڑائی کے لیے مزید بچوں کو بھرتی کرنے کے لیے فلسطینی مسئلے کا استحصال کر رہے ہیں۔ حوثیوں کو چاہیے کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں بچوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے وسائل کی سرمایہ کاری کریں اور انہیں جنگ کا ایندھن بنانے سے گریز کریں‘‘۔
ہیومن رائٹس واچ نے انسانی حقوق کے کارکنوں کی شہادتوں کی بنیاد پر تصدیق کی ہے کہ حوثی ملیشیا کے ہاں حالیہ مہینوں میں بچوں کی بھرتی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی محقق نے مزید کہا کہ "حوثی بچوں کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ وہ فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے لڑیں گے، لیکن آخر کار وہ انھیں مآرب اور تعز میں (فرنٹ لائنز) بھیج دیتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حوثی سرکاری اداروں بہ شمول اسکولوں کو بچوں کو بھرتی کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے فوری طور پر درکار انسانی امداد کا استحصال کر رہے ہیں۔