بلوچ نیشنل موومنٹ کے مرکزی انفارمیشن سیکریٹری قاضی داد محمد ریجان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں پاکستانی حکام کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے کہ انھوں نے حالیہ حملوں میں بلوچ سرمچاروں کو نشانہ بنایا۔
قاضی ریحان نے متعدد پوسٹس کے ذریعے کہا کہ مغربی بلوچستان کے مختلف مقامات پر پاکستانی حملوں میں ایک مکمل خاندان کو نیند کی حالت میں قتل کیا گیا ، جن میں سے کوئی بھی مسلح جدوجہد کا حصہ نہیں تھا۔ معصوم متاثرین میں بچے ، خواتین اور مرد شامل ہیں جو براہ راست کسی تصادم کا حصہ نہیں تھے۔
انھوں نے پاکستانی صحافی احمد نورانی کے ایکپوسٹ کے ردعمل میں کہا کہ پاکستانی فوج اور میڈیا کی طرف سے حسب معمول جھوٹی خبریں مختلف معتبر بلوچ اداروں کے حوالے سے ایڈٹ کرکے شائع کی جا رہی ہیں۔ پاکستان کے حملوں میں مغربی بلوچستان میں سراوان کے علاقوں میں مقامی آبادی کو نشانہ بنایا گیا ہے ، سوتے ہوئے بچوں اور خواتین کی شہادتیں ہوئی ہیں۔
قاضی ریحان نے مزید کہا کہ ، مشرقی بلوچستان میں پاکستانی مظالم اور آبادیوں پر مسلسل حملوں اور جبری گمشدگیوں سے مجبور ہوکر کئی خاندان ہجرت کرکے مغربی بلوچستان چلے گئے ہیں، جہاں پاکستان مسلسل ٹارگٹ کلنگ کرکے ان لوگوں کو قتل کرتا آیا ہے، جو براہ راست تصادم کا حصہ نہیں۔مہاجرین کو تحفظ دینے کا مطالبہ دہراتے ہیں۔
انھوں نے کہاکہ فوٹیجز سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان نے مغربی بلوچستان میں عام آبادی پر حملے کیے ہیں۔ سبز کوہ ، پنجگور حملے کو جواز بنا کر پاکستانی نے بے رحمی کا مظاہرہ کرکے معصوموں کا قتل عام کیا۔یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ بین الاقوامی تنظیمیں کب تک خاموش رہئیں گی۔
بعد ازاں انھوں نے سانحہ شمسر کے شہداء کی تصاویر دیتے ہوئے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا مغربی بلوچستان میں ایک ایسے خاندان کو نشانہ بنایا ہے جو پہلے سے پاکستانی مظالم کا شکار تھا۔متاثرین مسلح جدوجہد میں شامل نہیں تھے، پاکستانی حکام کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ انھوں نے بی ایل ایف اور بی ایل اے کے خلاف حملے کیے ہیں بلکہ یہ حملے بلوچ مہاجرین پر کیے گئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ اس حملے میں چیئرمین دوست محمد ، نجمہ ، دوست محمد کے بچے بابر، ھانی ، چراگ اور ماھکان شہید ہوئے ہیں۔ یہ قابل مذمت عمل طاقت کے انتہائی غلط استعمال کی مثال ہے ، اور ایسے حملوں کے تباہ کن اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔