پاکستانی میڈیا جنگ گروپ کے ٹی وی چینل جیو کی فیکٹ چیک رپورٹ میں جبری گمشدگیوںسے متعلق پاکستان کے سابق نگراں وزیر داخلہ سرفرازبگٹی کی جھوٹ پکڑلی ہے۔
سرفراز بگٹی نے اپنے ایک انٹرویومیں یہ دعویٰ کیاتھا کہ جنوبی ایشیا میں جبری گمشدگیوں کی کم ترین تعداد پاکستان میں ہے۔
جیو فیکٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جبری گمشدگیوں پر اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے ایسی کوئی رپورٹ شائع نہیں کی ہے جس میں کہا گیا ہو کہ جنوبی ایشیا میں جبری گمشدگیوں کی کم ترین تعداد پاکستان میں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرفراز بگٹی جب نگراں وفاقی وزیر داخلہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے تو انہوں نے بارہا جبری گمشدگیوں کے متاثرین کے متعلق جھوٹا دعویٰ کیا۔
سرفراز بگٹی نے اپنے دعوے میں کہا تھا کہ پاکستان میں لاپتہ افراد کی تعداد جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے اور انہوں نے اس دعویٰ کو اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگیوں کی رپورٹ سے منسوب کیا۔
یکم دسمبر کو ڈان نیوز کی جانب سے کئے گئے انٹرویو میں اس وقت کے عبوری وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سے پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے متعلق پوچھا گیا۔
سرفراز بگٹی نے دعویٰ کیا کہ ”لاپتہ افراد کی تعداد میں بہت مبالغہ [dicey] ہے، حکومت نے جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن تشکیل دیا ہے جس نے 86-87 فیصد کیسز حل کئےہیں جو کہ ایک بڑی بات ہے۔“
اس کے بعد انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک ”ریجنل مسئلہ“ ہے۔
”مسنگ پرسنز صرف پاکستان کا ایشو نہیں ہے، یہ ایک علاقائی مسئلہ ہے۔ جب ہم کاؤنٹ کی بات کرتے ہیں تو ریجن میں جتنے ممالک ہیں ان میں سب سے کم کاؤنٹ پاکستان کا ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا یہ اقوام متحدہ نے ڈاکومنٹ [publish] کیا ہے اور وہ ڈاکومنٹ یہ کہتا ہےکہ ہماری جو تعداد ہے وہ ریجن کے ممالک سے کم ہے۔“
جیو فیکٹ چیک کے رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ آن انفورسڈ یا ان ولنٹری ڈس اپیرنسز (WGEID) نے ایسی کوئی رپورٹ شائع نہیں کی ہے جس میں کہا گیا ہو کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں جبری گمشدگیوں کی سب سے کم تعداد پاکستان میں ہے۔
سوئٹزرلینڈ میں WGEID سیکرٹریٹ سے پول پلاناس کالیکو (Pol Planas Callicó) نے جیو فیکٹ چیک کو جبری گمشدگیوں کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے WGEID کی تقریباً 100 ممالک سے جبری یا غیر ارادی طور پر گمشدگیوں کے بارے میں سالانہ اور سہ ماہی رپورٹس کا حوالہ دیا۔
پول پلاناس کالیکو نے وضاحت کی کہ چونکہ ستمبر 2023ء میں ہونے والی میٹنگ کے بعد کی رپورٹ ابھی تیار کی جا رہی ہے اس لیے اگست2023ء میں شائع ہونے والی سالانہ رپورٹ سے گروپ کی طرف سے جانچے گئے کیسز کے تازہ ترین ڈیٹا کےلئے رجوع کیا جا سکتا ہے۔
سالانہ رپورٹ کے مطابق، WGEIDنے 1980ء سے اگست 2023ء کے درمیان جنوبی ایشیا میں جبری گمشدگیوں کے سب سے زیادہ کیسز (12,855) سری لنکا کی حکومت کو منتقل کیے۔
دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ تعداد پاکستان سے (1,635) تھی۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ورکنگ گروپ پاکستان میں”رپورٹنگ مدت کے دوران منتقل ہونے والے تصدیق شدہ کیسوں کی بڑی تعداد“ جبری گمشدگیوں کے ”متواتر اور متعدد“ الزامات پر تشویش کا اظہار کرتا ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گروپ نے پاکستانی حکومت کو 2012ء میں اپنے آخری دورے کے بعد پاکستان کا دورہ کرنے کی متعدد درخواستیں بھیجی ہیں لیکن آج تک ان کا کوئی جواب نہیں ملا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ 2023ء کی سالانہ رپورٹ میں مختلف خاندانوں اور ان کے نمائندوں کی جانب سے ورکنگ گروپ کو جمع کرائے گئے کیسز کو جمع کیا گیا ہے جو بعد میں ان ممالک کو منتقل کیے گئے۔ اس میں درج ممالک میں مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کے موجودہ معاملات کا حوالہ نہیں دیا گیا ہے۔